قبائلی اضلاع میں پرائمری کے بعد اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی شرح 79 فیصد
پشاور: حکومت کی جانب سے افغان سرحدی علاقوں سے منسلک قبائلی علاقوں میں تعلیم کی صورتحال کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں داخل ہونے والی طالبات کی تعداد کا محض پانچواں حصہ ہی 5 جماعت تک تعلیم حاصل کر پاتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ساتوں قبائلی اضلاع کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 73 فیصد طالبعلم جس کے 69 فیصد لڑکے اور 79 فیصد لڑکیاں تعلیم کے ابتدائی سالوں میں ہی اسکول سے کنارہ کشی اختیا ر کرلیتے ہیں۔
ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس) کی جانب سے جاری کردہ 102 صفحات پر مشتمل شماریاتی رپورٹ کے مطابق مڈل اور ثانوی تعلیم کی صورتحال بھی انتہائی ابتر ہے اور اس سطح پر لڑکیوں کی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی شرح 50 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں اساتذہ اور تعلیم کیوں پیچھے ہے؟
دوسری جانب عسکریت پسندی سے متاثرہ شمالی وزیرستان میں تعلیم چھوڑنے کی شرح 63 فیصد ہے جس میں لڑکیوں کا تناسب 73 فیصد ہے جو ساتوں اضلاع میں سب سے زیادہ ہے تاہم رپورٹ میں اس کی وجوہات کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ قبائلی علاقہ جات میں 5 ہزار 8 سو 90 سرکاری اسکول موجود ہیں جس میں داخل ہونے والے طالبعلموں کی تعداد 6 لاکھ 77 ہزار ایک سو 57 ہے۔
رپورٹ میں مذکورہ علاقے میں تعلیم کی صورتحال کے ساتھ اسکولوں کی بدتر حالت کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا جس میں زیادہ تر سرکاری اسکولوں میں بجلی، پپینے کے صاف پانی اور ٹوائلٹس کی سہولت موجود نہیں جبکہ تعلیم کا کل بجٹ 12 ارب روپے ہے اور امداد کی رقم ملا کر ترقیاتی بجٹ 5 ارب روپے ہے۔
مزید پڑھیں: قبائلی علاقوں میں 10 برس سے 600 تعلیمی ادارے غیر فعال
رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں کے صرف 43 فیصد اسکولوں میں بجلی، 45.2 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی، 45 فیصد میں ٹوائلٹس کی سہولت ہے جبکہ صرف 70 فیصد اسکولوں کی چار دیواری موجود ہے۔
مذکورہ رپورٹ جسے ابھی منظرِ عام پر لایا جانا باقی ہے، میں تجویز دی گئی ہے کہ ان اضلاع میں موجود سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعداد کم ہورہی ہے جو 10-2009 میں 20 ہزار 7 سو 9 تھی وہ 18-2017 میں کم ہو کر 18 ہزار 6 سو 21 رہ گئی۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں لیب اسسٹنٹس اور اساتذہ کی 5 ہزار آسامیاں خالی ہیں جبکہ ان کی بھرتیوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن بھی وفاقی حکومت سے متعدد مرتبہ ان عہدوں پر بھرتیوں اور تازہ دم عملے کی فراہمی کا مطالبہ کرچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیمی انقلاب کیسے آئے گا؟
حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ قبائلی علاقہ جات میں شورش اور فوجی آپریشن کی وجہ سے شعبہ تعلیم کو خاصہ نقصان پہنچا اور صرف گزشتہ ایک دہائی میں 15 سو سے زائد اسکول مسمار کیے جاچکے ہیں۔
دوسری جانب اساتذہ کی بڑی تعداد ریٹائر ہوچکی ہے جن پر حکومت کی جانب سے بھرتیاں نہ ہونے کے سببب خلا پیدا ہوگیا ہے اس کے علاوہ اسکولوں میں سہولیات کا فقدان بھی ہے۔