• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جمہوری حکومت میں جبری گمشدگیاں نہیں ہوسکتیں، شیریں مزاری

شائع December 14, 2018
سینیٹ—فائل فوٹو
سینیٹ—فائل فوٹو

اسلام آباد: سینیٹ کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایوان بالا میں موقف اختیار کیا کہ جمہوریت میں جبری گمشدگیاں نہیں ہو سکتیں۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اراکین کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں جبری گمشدگیاں نہیں ہوسکتیں، حکومت سے اس معاملے پر بات چیت شروع کردی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی جائے گی۔

اجلاس میں وقفہ سوالات میں سینیٹر غوث نیازی نے پوچھا کہ کیا پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے پر دیا گیا؟ کیا یورپی یونین نے آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) سے نکلوانے کی درخواست جی ایس پی پلس کی بنیاد پر کی؟

یہ بھی پڑھیں: ’آمر کے دور میں بھی کبھی سینیٹ رولنگ پر سوال نہیں اٹھایا گیا‘

جس پر شیریں مزاری نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے 7 کنونشن پر عمل درآمد کرنا ہے اس سلسلے میں کئی قوانین بنائے جا چکے ہیں اور کچھ صوبائی معاملات ہیں جن پر صوبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر یورپی یونین کی درخواست کا علم نہیں، اس بارے میں وزارت داخلہ ہی بہتر بتا سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ زینب ریسپانس الرٹ اینڈ ریکوری بل وزارت قانون کو بھیجوا دیا ہے اور بچوں کی گداگری روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر برائے انسانی حقوق کی عدم شرکت پر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے ارکان برہم

جیلوں کی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جیلوں کے حالات صرف بچوں کے لیے نہیں عورتوں کے لیے بھی اچھے نہیں، اس سلسلے میں آئندہ ہفتے جیلوں کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے جیلوں کے دورے کروں گی۔

زیر التوا مقدمات کی تفصیلات

سینیٹ اجلاس میں وزیر قانون کی جانب سے تحریری طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں زیر التواء کیسز کی تفصیلات بھی پیش کردی گئیں۔

مذکورہ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 39 ہزار 7 سو 42 مقدمات زیر التوا ہیں، لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 65 ہزار 8 سو مقدمات جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں 91 ہزار 5 سو 48 مقدمات زیر التوا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی اوورسیز کمیٹی کا اجلاس: زلفی بخاری اور سسی پلیجو کے درمیان تلخ کلامی

اس کے ساتھ پشاور ہائیکورٹ میں 29 ہزار 4 سو 44 مقدمات، بلوچستان ہائیکورٹ میں 6 ہزار 8 سو 52 مقدمات، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 17 ہزار 56 مقدمات زیر التوا ہیں۔

اس طرح ملک بھر میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 50 ہزار 4 سو 47 مقدمات زیر التوا ہیں۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے خود مختار ہونے کے باعث وزارت قانون کے پاس عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات موجود نہیں، فراہم کردہ معلومات پاکستان کمیشن برائے قانون انصاف سے حاصل کی گئیں۔

اپوزیشن لیڈر کا اعتراض

سینیٹ اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: وزیر اطلاعات اور مشاہدہ اللہ خان میں پھر تلخ کلامی، اپوزیشن کا شدید احتجاج

اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ پیر صابر شاہ کے خلاف نیب کارروائی کی خبریں آئی ہیں، کسی کو کوئی نوٹس دیئے بغیر تمام اخبارات میں خبر آجاتی ہے، نیب کی جانب سے یہ ایک ایسا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، مجھے نہیں معلوم نیب نے یہ کسی کے کہنے پر کیا یا خود ہی یہ طریقہ ایجاد کرلیا۔

راجا طفر الحق نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو موقع دیے بغیر کیوں بدنام کیا جا رہا ہے، خواجہ سعد رفیق کو اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جائے۔

بعد ازاں اپوزیشن نے نیب کارروائیوں پر اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

روپے کی قدر میں کمی پر توجہ دلاؤ نوٹس

سینیٹ اجلاس میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوان میں روپے کی قدر میں کمی سے متعلق توجہ دلاو نوٹس پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ: مسلح افراد کے کراچی پریس کلب میں داخلے پر سندھ حکومت سے رپورٹ طلب

اجلاس میں وزیر خزانہ کی عدم حاضری پر شیری رحمٰن نے احتجاج بھی کیا، ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ ایوان میں موجود نہیں توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب کون دے گا، 40 اراکین کی کابینہ ہونے کے باوجود ایک بھی وزیر ایوان میں موجود نہیں۔

جس پر روپے کی قدر میں کمی سے متعلق نوٹس متعلقہ وزیر کے ایوان میں موجود ہونے تک موخر کردیا گیا۔

سندھ کو گیس کی فراہمی کا معاملہ

پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں گیس کی سپلائی غیر معینہ مدت کے لیے منقطع کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ سینیٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا اور تحریک التوا جمع کروادی۔

تحریک التوا پی پی پی کی سینیٹر سسی پلیجو کی جانب سے پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ کو گیس کی فراہمی معطل کرنا آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے، 70 فیصد گیس پیدا کرنے کے باوجود سندھ کو گیس کی فراہمی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ‘چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر وزیراعظم اور کابینہ کو افسوس ہوا

ان کا مزید کہنا تھا کہ گیس کی فراہمی معطل ہونے کے باعث سندھ میں سی این جی اسٹیشنز اور صنعتیں بند ہیں جبکہ گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، سینیٹر سسی پلیجو نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ کی معمول کی کارروائی معطل کر کے سندھ کو گیس کی فراہمی معطل کرنے کے معاملے پر بحث کی جائے۔

وزیر اعظم ہاؤس اخراجات

اجلاس میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران وزیر اعظم آفس کے اخراجات کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں جس کے مطابق سال 14-2013 کے دوران وزیراعظم آفس کے کل اخراجات 39 کروڑ 99 لاکھ روپے تھے۔

اسی طرح سال 15-2014 میں وزیر اعظم آفس کے اخراجات 37 کروڑ روپے، سال 16-2015 میں 41 کروڑ روپے، سال 17-2016 میں 50 کروڑ 88 لاکھ روپے اور سال 18-2017 میں وزیر اعظم آفس کے اخراجات 50 کروڑ 88 لاکھ روپے رہے۔

اپوزیشن کا واک آؤٹ

سینیٹ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر آصف سعید کرمانی نے کہا کہ نیب حکومت کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق ایک بہت پرانے سیاسی ورکر ہیں، ان کے قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں، جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ دوسرے ہاؤس کا معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دھاندلی کی تحقیقاتی کمیٹی میں سینیٹ کو بھی شامل کیا جائے،اپوزیشن

سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ میں اپنی آواز کہاں اٹھاؤں، اگر کل حکومتی بینچز میں سے کسی پر کوئی وقت آیا تو ان کے لیے بھی آواز اٹھائیں گے جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ آواز ضرور اٹھائیں مگر یہ دوسرے ہاؤس کا معاملہ ہے۔

سینیٹر آصف کرمانی نے مطالبہ کیا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہاؤس میں بلایا جائے تاکہ جو کچھ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے متعلق کہا گیا، اس پر وہ وضاحت دیں۔

آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ بدترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کیا یہ پاک صاف لوگ ہیں؟ یہ کونسا کالا قانون ہے کہ 2 ماہ سے شہباز شریف کو حراست میں لیا ہوا ہے جبکہ کوئی کیس نہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیب کی آڑ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائی ختم کی جائے۔

بعدازاں نیب کی کارروائیوں پر احتجاجاً اپوزیشن اراکین نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

کیا اپوزیشن کو بار بار منا کر لانا میری ذمہ داری ہے، سینیٹر شبلی فراز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اپنی بات کر کے چلی گئی، اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن گیلریز کے لیے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اپوزیشن بار بار واک آؤٹ کررہی ہے تو کیا میں بار بار جا کر ان کو مناؤں؟ کیا اپوزیشن کو منا کر واپس لانا میری ہی ذمہ داری رہ گئی ہے؟

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کی حکومت سی پیک کو کمزور کرنا چاہتی ہے، سینیٹر رضا ربانی

ایوان سے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بھی خطاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ رات کو میڈیا میں گورنر اسٹیٹ بینک سے منسوب غلط بیان چلایا گیا، انہوں نے ماضی میں روپے کی قدر میں اضافے پر بات کی تھی۔

وزیر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھا، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فیصل آباد میں 120 ایکسپورٹ ملز بند ہیں۔

حماد اظہر کے خطاب کے دوران نیشنل پارٹی کے سینیٹر اشوک کمار نے اپوزشین کے واک آؤٹ کے بعد کورم کی نشاندہی کی، جس پر کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی پیر کے روز ڈھائی بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024