مسلم لیگ(ن) کے 7 رہنماؤں نے مجھ سے این آر او مانگا، مراد سعید کا دعویٰ
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے مواصلات نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھ سے مسلم لیگ(ن) کے 7 رہنماؤں نے این آر او مانگا ہے لیکن کسی کو این آر او نہیں ملے گا اور مقدمات چلتے رہیں گے۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پروڈکشن آرڈر پر شرکت کی، تاہم اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مراد سعید کا کہنا تھا کہ این آر اور کے لیے سب سے پہلے جس نے مجھ سے رابطہ کیا وہ اس ایوان میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم سے وعدہ کرکے آیا ہوں کہ پاکستان سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ کرنا ہے اور انشاءاللہ ہم اسے کریں گے۔
مزید پڑھیں: مراد سعید، حنیف عباسی سمیت 15 سو امیدوار پی ٹی سی ایل کے نادہندہ
مراد سعید کا کہنا تھا کہ اس ریاست، حکومت اور آئین پاکستان نے جو ذمہ داری تھی ہے اس کے تحت جو میرے اختیار میں ہے میں وہ کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ جس بے دردی سے اس ملک کو لوٹا گیا اس کی وصولی بھی کرنی ہے اور ان لوگوں کو جیل میں ڈالنا ہے، جنہوں نے اس ملک کو لوٹا اور آئندہ کے لیے ایسی پالیساں بنانی ہیں کہ ملک کو کوئی لوٹ نہیں سکے۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور انشاءاللہ جس سمت میں ملک جارہا ہے یہاں روزگار ملے گا، یہاں بچوں کو تعلیم بھی ملے گی اور ملک سے باہر موجود پیسہ بھی واپس آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کے اثاثے ڈی چوک پر نیلام کیے جائیں اور پاکستان کو لوٹنے والوں کو جیل میں ڈالا جائے۔
قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل، میٹرو بس منصوبے بڑے اسکینڈل نہیں؟ کیا اپوزیشن کے کیس ہمارے دور میں آئے۔
مراد سعید کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے ایوان میں صرف الزام تراشیاں ہی ہورہی ہیں، ہم نے عوام کو جواب دینا ہے کہ ایوان میں کیا کارروائی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے 7 رہنماؤں نے مجھ سے این آر او مانگا لیکن کیسز چلتے رہیں گے، جو پہلے بندے سے این آر او مانگا وہ ایوان میں موجود ہے۔
اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ان 7 افراد کے نام سامنے لائیں لیکن مراد سعید نے تفصیلات واضح نہیں کیں۔
مراد سعید کا کہنا تھا کہ یہ قرار داد منظور کی جائے کہ جس نے اس قوم کا ایک پیسہ بھی لوٹا ہے اسے ڈی چوک پر پھانسی دی جائے اور ایسے لوگوں کے اثاثے نیلام کیے جائیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو بھی گرفتار کرنا چاہیے، شاہد خاقان عباسی
اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباس کا کہنا تھا کہ کل اس ایوان کے ایک رکن خواجہ سعد رفیق کو گرفتار کیا گیا، اسپیکر اسمبلی کو اس ایوان کو گرفتاری سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ احتساب کو اپوزیشن کو دبانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، شہباز شریف کو 64 دن سے ریمانڈ پر رکھا ہوا ہے لیکن کیس نہیں بن سکا، اس قسم کے معاملات سے پارلیمان کی بالادستی کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی 100روزہ کارکردگی سے متعلق'وائٹ پیپر' جاری کردیا
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نے حالیہ تقریر میں ارکان پارلیمنٹ پر سنگین الزامات عائد کیے جبکہ آرٹیکل 10 اے منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر ایوان کے قائد حزب اختلاف کو گرفتار کیا جاسکتا ہے تو قائد ایوان کو بھی گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان پر ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال کا کیس ہے، انہیں بھی گرفتار کیا جائے بلکہ علیم خان، علیمہ خانم، پرویز الٰہی اور پرویز خٹک کو بھی گرفتار کیا جائے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم احتساب کے حق میں ہیں، بے شک اسے ہماری سابق حکومت سے شروع کیا جائے لیکن احتساب کیا جائے، میڈیا ٹرائل کے ذریعے اپوزیشن ارکان کو دبایا نہ جائے، ہم نے یہ معاملات پہلے بھی بھگتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف 200 سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں جبکہ اربوں کی کرپشن کرنے والے آزاد پھرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نیب اگر پارلیمنٹ یا اسپیکر کی بات نہیں سنتا تو کس کی سنے گا، اسپیکر اس ایوان کی عزت کروائیں اور بالادستی کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں تاکہ وہ آکر خود صفائی پیش کریں۔
لگتا ہے اگلا اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑے گا، نوید قمر
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ لگتا ہے ایوان کا اگلا اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے سوالات اس وقت کے کیے جارہے ہیں، جب وہ ایک سال کے تھے۔
نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد اپوزیشن کو گندہ کرنا ہے، حکومت صرف ون پارٹی حکمرانی کرنا چاہتی ہے، آمریت میں اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جاتا تھا، جمہوریت میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف اپوزیشن کو گندہ کرنے کے لیے ملک کا نقصان کیا جارہا ہے، جب سے احتساب کے ادارے بنے تب سے انتقامی کارروائی ہورہی جبکہ کرپشن پر کبھی کوئی کام نہیں ہوا۔
اس موقع پر انہوں نے بھی یہی مطالبہ کیا کہ خواجہ سعد رفیق کے فوری پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔
داغدار افراد سے حساب نہ لےسکے تو حکومت کرنے کا حق نہیں، فواد چوہدری
دوران اجلاس اپوزیشن رہنماؤں کے خطاب کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے خطاب کیا اور اس دوران ان کے بیان پر مسلم لیگ(ن) نے ہنگامہ آرائی بھی کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی تربیت ٹھیک نہیں ہوئی، یہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں، خواجہ سعد رفیق کو عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے پر گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں: فواد چوہدری اور مشاہد اللہ کے درمیان سینیٹ میں لفظی جنگ
فواہد چوہدری کے ان الفاظ پر اپوزیشن نے ہنگامہ کیا، جس پر ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اطلاعات کو کہا کہ آپ اپنے الفاظ واپس لیں، اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا میں کہہ دیتا ہوں کہ تربیت اچھی ہوئی ہے۔
بعد ازاں تربیت سے متعلق فواد چوہدری کے الفاظ قومی اسمبلی کی کارروائی سے حذف کردیے گئے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال میں جس طرح ملک کو چلایا گیا وہ سب کے سامنے ہے، شاہد خاقان عباسی اپنے خطاب میں ایک بات کو نظر انداز کر گئے کہ چیئرمین نیب کا تقرر کرنے والے بھی وہ خود ہی ہیں۔
اس دوران مسلم لیگ(ن) کی رہنما نے فواد چوہدری کی تقریر کے درمیان مداخلت کی، جس پر وفاقی وزیر نے متوقع گرفتاری کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بھی ابھی جانا ہے حوصلہ رکھیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’انہیں اپنے کرتوتوں کا اچھی طرح پتہ ہے، انوکھے لاڈلے کھیلنے کو چاند مانگ رہے ہیں‘۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سابق دور حکومت میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کرنے والوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت نیب کی کارروائیاں نہیں روکے گی، اگر ہم داغدار لوگوں سے حساب نہیں لے سکے تو ہمیں حکومت کرنے کا حق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ صاف اور شفاف احتساب ہورہا ہے، احتساب عمل کو متنازع بنانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیب اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں اور سب اپنے گریبان میں جھانکیں۔
وزیر اطلاعات کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فواد چوہدری نے امتحان پاس کیا ہوا ہے، ان کو میری باتیں ناگوار گزری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوان کے دونوں اطراف کے اراکین کی تضحیک ہورہی ہے، پارلیمنٹ سے احتساب شروع کیا جائے، ایوان کے اراکین بتائیں کہ وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اراکین بتائیں سیاست میں آنے سے پہلے کتنے پیسے تھے اور اب کتنے ہیں، جو معیار ن لیگ کے رہنماؤں کے لیے اپنایا گیا وہ کابینہ پر لگائیں 70تو فیصد جیل میں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرف کی جیلیں بھی بھگتی ہیں، ان کی جیلیں بھی بھگت لیں گے، حکومت کے پاس پاکستان سے متعلق کوئی منصوبہ نہیں
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بہت سی حکومتیں آتی جاتی دیکھی ہیں، حکومت کام کرے، مسائل حل کرے کیونکہ گالم گلوچ کا زمانہ چلا گیا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف ایوان سے اٹھ کر چلے گئے
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی موجود تھے، تاہم ایوان میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان گرما گرمی کے بعد وہ ایوان سے اٹھ کر چلے گئے۔
اس سے قبل انہوں نے منسٹر انکلیو میں اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔
مزید پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم
تقریباً 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی تھی اور نیب کیسز اور حالیہ گرفتاریوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
علاوہ ازیں لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار شہباز شریف کے راہداری ریمانڈ میں قومی اسملی کا سیشن ختم ہونے تک توسیع کی تھی۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ شہباز شریف کو جب واپس جیل لایا جائے توعدالت کو آگاہ کیا جائے۔
کرپشن میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہمارا کام نہیں، راجا پرویز اشرف
قومی اسمبلی کے طویل اجلاس میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے بھی اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہم ایک دوسرے کے سامنے اپنا کیس رکھیں، بطور وزیر اعظم میں نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا اور کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی کمیشن بنا دیں تاکہ 2 سے 3 ماہ کے اندر فیصلہ آجائے گا۔
راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ بقول وزیر اطلاعات کسی نے گاجریں کھائی ہیں تو اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے نیب کو کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے نہیں بنایا تھا، ہم لوگ اپنی زندگیاں گزار چکے ہیں، آپ لوگوں نے کل ملک کو سنھبالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ہوئے 100 روز سے زیادہ ہوئے ہیں، اتنے مختصر دورانیے میں پرفارمنس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم اربوں روپے کے الزامات ایک دوسرے پر لگاتے ہیں، ہمارا یہ کام نہیں کہ کرپشن میں ایک دوسروں کا ساتھ دیں، ہمارا کام یہ ہے کہ غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک کہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایوان کے ہر روز کے اجلاس میں عوام کے 10 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، عوام کو کیسے حساب دیں گے کہ اس ایوان کی کارروائی میں کیا ہوا، 4 مہینے ہونے کو آئے ہیں اور ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
چور چور کرتے کہیں ایوان کو جنگل نہ بنا دیں، اختر مینگل
اجلاس کے آخر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئرمین اخترمینگل کا کہنا تھا کہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی جو ختم نہیں ہو پارہی۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی کرپشن ہی اس ملک کی تباہی کی وجہ ہے، جو بھی کرپشن میں ملوث ہے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کررہی، سردار اختر مینگل
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ الیکشن کا مرحلہ احتساب ہی ہے، کیا انتخابی مراحل کو صاف اور شفاف کہا جاتا ہے، قوم قطار میں لگ کر ٹھپے ماردیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایک کو چور دوسرے کو ڈاکو کہا جاتا ہے، چور چور کرتے کرتے کہیں اس ایوان کو جنگل نہ بنا دیں، کہیں مور اس ایوان میں ناچنا شروع نہ کردیں۔
اس موقع پر انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کا بھی کوئی احتساب کرے جنہوں نے ڈبے بھرے اور ڈبے چرائے ہیں۔
بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس کل (جمعرات) کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔