• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

سپریم کورٹ: کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم

شائع December 12, 2018

کراچی: سپریم کورٹ نے شہری حکومت کو کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ رفاہی پلاٹوں پر قائم مکانات اور مارکیٹس کو 15 دن کے بجائے 45 دن کا پیشگی نوٹس دیا جائے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے شہر میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کے معاملے پر رپورٹ پیش کی گئی۔

مذکورہ رپورٹ میں وفاقی، صوبائی حکومتوں اور مئیر کراچی کی جانب سے مشترکہ لائحہ عمل پیش کیا گیا، جس میں وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں نے تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے رہائشی اور کاروباری مقامات پر تجاوزات گرانے سے روک دیا

جس پر سپریم کورٹ نے تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ رفاہی پلاٹوں پر قائم مکانات اور مارکیٹس کو 15 دن کے بجائے 45 دن کا پیشگی نوٹس دیا جائے۔

علاوہ ازیں مئیر کراچی وسیم اختر نے عدالت سے کہا کہ وفاقی حکومت سے گرانٹ لینے پر انہیں تحفظات ہیں، اگر وفاقی حکومت نے گرانٹ نہ دی تو کیا ہوگا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 20 کروڑ کی گرانٹ دینا وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں اور ساتھ ہی عدالت نے سندھ حکومت کو خود سے 'کے ایم سی' کو 20 کروڑ جاری کرنے کا حکم دیا۔

دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے مؤقف کے مطابق انہوں نے 20 کروڑ روپے دینے کے لیے وفاقی حکومت سے مدد مانگ لی ہے۔

وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ حکومت متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ فراہم کرے گی۔

جس پر چیف جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت آنکھ بند کرکے بیٹھی تھی جو شہر تباہ ہو گیا، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ صورتحال کے ایم سی کی غفلت کے باعث ہوئی۔

اس موقع پر مئیر کراچی وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کہنا درست نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تجاوزات کیخلاف آپریشن: وفاقی اور سندھ حکومتوں کی نظرثانی درخواست

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 6 ہفتوں کا پیشگی نوٹس صرف رفاہی پلاٹوں پر قائم گھروں سے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بلڈرز مافیا کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن جاری رہنا چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی اور ایس بی سی اے سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے گھروں کو بھی مسمار کر رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کسی کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرے گی، مگر آپریشن قانون کے عین مطابق ہونا چاہیے، کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

مئیر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ رفاہی پلاٹوں پر عدالتوں نے حکم امتناع دے رکھا ہے، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ سندھ ہائیکورٹ 15 دن میں تمام کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر سندھ ہائیکورٹ نے 15 دن میں کیسز نہ نمٹائے تو تمام کیسز سپریم کورٹ میں لگا دیے جائیں۔

تجاوزات کے خاتمے سے متعلق رپورٹ

وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی مشترکہ رپورٹ میں مارکیٹس کی بحالی کے لیے متبادل جگہ دینے کی تجویز پیش کی گئی۔

اس کے علاوہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ پارکنگ پلازہ گراؤنڈ اور میزانائن میں 2 سو 40 دکانیں دی جائیں گی جبکہ پارکنگ پلازہ کے سامنے پلاٹ پر 4 سو دکانیں بنائی جائیں گی۔

عدالت کے سامنے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ بولٹن مارکیٹ پر ریونیو کے پلاٹ پر 12 سو دکانیں بنائی جائیں گی جبکہ کھاردار پولیس اسٹیشن کے پیچھے بندر کوارٹر میں بھی 2 سو 65 دکانیں تعمیر کرکے دینے کی تجویز ہے۔

عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 2 ہزار ایک سو 5 دکانیں متاثرین کو دی جائیں گی جبکہ مذکورہ پلاٹس بحالی کے لیے 'کے ایم سی' کو ان کی منتقلی سے متعلق سمری وزیر اعلی سندھ کو ارسال کردی گئی۔

گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ رہائشی اور کاروباری مقامات پر موجود تجاوزات کو فی الحال نہ گرایا جائے اور بدھ کی صبح تک میئر کراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت اس حوالے سے پلان بنا کر عدالت میں پیش کریں۔

قبضے کرکے مارکیٹس بنانا ناسور ہے، چیف جسٹس

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں جاری تجاوزات کے خلاف آپریشن کے معاملے پر تاجر اتحاد کے صدر حکیم شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔

حکیم شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری مارکیٹس کو گرا دیا گیا، متبادل جگہ دی جائے۔

جس پر چیف جسٹس نے تاجر اتحاد کے صدر کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک تو ناجائز بیٹھے تھے اور پھر متبادل بھی مانگ رہے ہیں اور ساتھ ہی استفسار کیا کہ کیا واشنگٹن، نیوز یارک اور لندن میں ایسا کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میری نظر میں آپ لوگوں کا کوئی حق نہیں، داد رسی کے لیے 'کے ایم سی' کے پاس جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قبضے کرکے مارکیٹس بنانا ناسور ہے، کیا ہم غیر مہذب معاشرے میں رہ رہے ہیں اور عدالت نے حکم دیا کہ نقصان خود برداشت کریں۔

عدالت عظمیٰ نے تاجر اتحاد کی درخواست مسترد کردی۔

تجاوزات کے خلاف آپریشن

خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سے 15 روز میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس حکم کے بعد شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن شروع کیا گیا تھا اور پہلے مرحلے میں صدر کو صاف کیا گیا تھا اور مشہور ایمپریس مارکیٹس کے اطراف غیر قانونی طور پر قائم ہزاروں دکانیں مسمار کردی گئی تھیں۔

صدر کے بعد آپریشن کا رخ دیگر علاقوں میں کیا گیا اور لائٹ ہاؤس، آرام باغ اور اطراف کے علاقوں سے تجاوزات ختم کردی گئیں جبکہ تاحال شہر میں آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 17 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں ریلوے کی زمین سے قبضہ چھڑوا کر فوری طور پر کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا تھا۔

علاوہ ازیں 24 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں پرانی جھیلیں اور پارکوں کو بحال کرانے کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے خلاف بلاتعطل کارروائی جاری رکھنے کا بھی حکم دیا تھا۔

بعد ازاں 7 دسمبر 2018 کو وفاقی اور سندھ حکومتوں نے کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024