• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

موٹاپا زیادہ کھانے یا بیٹھنے سے نہیں ہوتا تو پھر ہوتا کیسے ہے؟

شائع December 11, 2018
موٹاپے کے کئی وجوہات ہیں—فائل فوٹو: جکارتا پوسٹ
موٹاپے کے کئی وجوہات ہیں—فائل فوٹو: جکارتا پوسٹ

ویسے تو ماہرین بھی آج تک اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ بعض انسان موٹے کیوں ہوتے ہیں؟

انسان کے موٹے ہونے یا ان کے وزن بڑھنے کے حوالے سے کئی تحقیقات کی جا چکی ہیں اور ہر بار اس حوالے سے کوئی نہ کوئی نیا سبب سامنے آیا ہے۔

زیادہ تر سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ انسان ہی موٹا ہوتا ہے جو زیادہ غذائیں کھانے سمیت ہر وقت بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔

بعض افراد کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی نوکری اس طرح کی ہے وہ زیادہ تر کرسی پر بیٹھے رہتے ہیں اور گاڑی میں سفر کرتے ہیں، کوئی ورزش نہیں کرتے، اپنے کام کی ٹیبل پر کھانا کھاتے ہیں، جس وجہ سے ان کا وزن بڑھ گیا ہے۔

موٹاپا بڑھنے کی وجہ سے یقینا دنیا بھر میں کئی طرح کے مسائل بھی ہوئے ہیں اور ترقی پذیر ممالک سمیت ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے مرنے کا ایک سبب موٹاپا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹاپے سے نجات میں مددگار 5 مشروبات

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 70 فیصد افراد موٹاپا یا اضافی وزن کا شکار ہیں، جب کہ ایسے افراد موٹاپا یا اپنا وزن کم کرنے کے لیے جہاں زیادہ وقت بھوک کا شکار رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہیں وہ مختلف ایکسر سائیزز بھی کرتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انسان کا طرز زندگی، کھانے پینے کا شوق، ہر وقت بیٹھے رہنے، سوتے رہنے اور ورزش نہ کرنے کی وجہ سے وزن بڑھتا ہے اور وہ موٹاپے کا شکار رہتا ہے۔

تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں، جو ہر طرح کی غذائیں بھی کھاتے ہیں، زیادہ وقت تک بیٹھے رہنے سمیت کوئی ایکسر سائیز بھی نہیں کرتے، لیکن پھر بھی وہ موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے۔

اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد اپنی غذا کو کم رکھنے سمیت ایکسر سائیز کا بھی اہتمام کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اورانسان موٹا کیسے اور کن چیزوں سے ہوتا ہے؟

تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہر انسان کا جسم مختلف ہوتا ہے اور ہر کسی کے جسم میں غذائیت کو جذب کرنے اور غذا کو مکمل جسم میں تقسیم کرنے کی اہلیت بھی منفرد ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: موٹاپے سے نجات کے لیے مددگار پھل

ویٹ مینیجمنٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف بھارتی ادارے ’دھرندھر‘ کے ماہرین کے مطابق انسان در اصل کچھ ہارمون کی خرابیوں کی وجہ سے ہی موٹا ہے، اس میں انسان کے کھانے پینے یا ہر وقت بیٹھے رہنے کا کوئی عمل دخل نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرت نے انسان کے جسم کو اس قدر اعلیٰ سائنسی بنیادوں پر تخلیق کیا ہے کہ ہر کسی کا جسم اپنی ضروریات خود ہی محسوس کرتا ہے اور جسم میں موجود کچھ خاص عضو اور ہارمونز خود ہی ہر ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔

دھرندھر کے ماہرین کے مطابق ہر انسان کے جسم میں چربی کو جمع کرنے کا ایک سسٹم موجود ہوتا ہے، جو مختلف غذاؤں سے حاصل ہونے والی چربی کو ایک جگہ جمع کرتا ہے، جس کے بعد ضرورت پڑنے پر وہ سسٹم چربی کو جسم کے ان حصوں میں منتقل کرتا ہے، جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر انسان کا دماغ غذائیت اور بھوک کے حوالے سے 2 ہارمونز ’لیپٹین‘ اور ’گیرلن‘ پیدا کرتا ہے، جو انسان کے جسم کی غذائی ضروریات اور سسٹم کو کنٹرول کرتے ہیں، ان ہی ہارمونز کی وجہ سے انسان کو غذاؤں کی طلب ہوتی ہے، یہی ہارمونز انسان کے جسم میں موجود غذائی سسٹم میں چربی کو جمع کرنے اور اسے جسم کے دیگر حصوں تک منتقل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا کھجوریں موٹاپے سے نجات کے لیے مددگار ہیں؟

لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے جسم میں اس قدر نمایاں سائنسی بنیادوں پر سسٹم موجود ہے تو پھر بھی انسان موٹا کیوں ہوتا ہے؟

اسی سوال کا جواب ان ہی ماہرین نے یوں دیا ہے کہ چوں کہ ہر انسان ایک طرح پیدا نہیں ہوتا، کچھ انسان ان ہارمونز کی خرابی کے ساتھ بھی پیدا ہوتے ہیں اور کچھ انسان چربی کو جمع کرنے والے سسٹم کی دیگر خرابیوں کے ساتھ بھی پیدا ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز اور دیگر اندرونی سسٹم کی خرابیوں کے ساتھ پیدا ہونے والے انسان ہی موٹے ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ انسانی جسم کے یہ سسٹمز اور ہارمونز بعد میں بھی خراب ہوتے ہیں اور انہیں خراب کرنے میں خود انسان کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ماہرین نے دلیل دی کہ بعض مرتبہ انسان ایسی غذائیں کھاتا ہے جنہیں کھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوتا، تاہم مجبورا یا رسما وہ انہیں کھاتا ہے، جو بعد میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔


نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024