نادیہ مراد، ڈاکٹر ڈینس مکویگے کو امن کے 'نوبیل انعام' سے نواز دیا گیا
اوسلو: کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مُکویگے اور عراق کی یزیدی خاتون نادیہ مُراد نے سال 2018 کا امن کا نوبیل انعام جیت لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ڈاکٹر ڈینس مکویگے، جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کرنے پر 'ڈاکٹر مِراکل (معجزہ)' بھی کہا جاتا ہے اور دہشت گرد تنظیم 'داعش' کی جنسی غلامی سے فرار ہونے والی نادیہ مراد، جو اپنے تجربے کو استعمال کرکے یزیدی لوگوں کی طاقتور آواز بنیں، کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اعزاز سے نوازا گیا۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی نے دونوں کو جنگ اور مسلح تصادم کے دوران جنسی زیادتی کے بطور ہتھیار استعمال کی خاتمے کی کوششوں پر اکتوبر میں انعام سے نوازنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈاکٹر ڈینس اور نادیہ مراد نے عالمی انعام دنیا بھر میں جنسی زیادتی سے متاثرہ خواتین کے نام کردیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ نوبیل انعام سے جنسی تشدد سے متعلق آگاہی کو فروغ ملے گا اور دنیا کو اسے نظرانداز کرنا آسان نہیں رہے گا۔
ڈاکٹر ڈینس مکویگے نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ 'ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم زیادتی کے خلاف میدان عمل میں اس لیے نہیں آئے کیونکہ ہمیں علم نہیں تھا، اب ہر کوئی جانتا ہے اور میرے خیال میں اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف سامنے آئے۔'
یہ بھی پڑھیں: فزکس کا نوبل انعام خاتون سمیت 3 سائنسدانوں کے نام
یہ دوسرا موقع ہے کہ امن کے نوبیل انعام کسی کم عمر لڑکی کو گیا ہے، اس سے قبل 2014 میں پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو یہ انعام دیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کو محض 17 سال کی عمر میں نوبیل کا انعام دیا گیا تھا، ان کے ساتھ 61 سالہ بھارتی سماجی کارکن کیلاش سدھیارتھی کو یہ انعام دیا گیا تھا۔
نادیہ مراد
25 سالہ نادیہ مراد عراق کے یزیدی کرد قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں، 2003 میں امریکا کی جانب سے عراق پر حملے کے وقت ان کے خاندان کے کچھ افراد مارے گئے، وہ اس وقت انتہائی کم عمر تھیں۔
جب نادیہ مراد کی عمر 19 برس تھی، تب 'داعش' نے ان کے گاؤں پر حملہ کرکے 600 افراد کو قتل کردیا، جن میں ان کے بھائی اور دیگر اہل خانہ بھی شامل تھے۔
اسی حملے کے دوران نادیہ مراد سمیت دیگر متعدد نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا گیا۔
نادیہ مراد کم سے کم 3 سال تک داعش سمیت دیگر جنگجو گروپوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جنسی کاروبار کے تحت فروخت ہوتی اور ریپ کا نشانہ بنتی رہیں۔
مزید پڑھیں: کیمسٹری کا نوبل انعام خاتون سمیت 3 سائنسدانوں کے نام
بعد ازاں نادیہ مراد 2015 میں کسی طریقے سے داعش کے قبضے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئیں۔
فروری 2015 میں نادیہ مراد کو اقوام متحدہ (یو این) کے اجلاس میں بلایا گیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی لرزہ خیز داستان سنائی، وہ اس وقت اقوام متحدہ کی جذبہ خیر سگالی کی سفیر بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سمیت سیکڑوں نوجوان لڑکیوں کو وحشی جنگجو ریپ کا نشانہ بناتے اور ان پر بدترین تشدد کرتے رہے، جنگجو لڑکیوں کے جسموں کو سگریٹ سے جلانے سمیت دیگر طرح سے اذیتیں دیتے رہے۔
نادیہ مراد اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں اور لڑکیوں کے اغواء، ریپ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال سے متعلق کام کرنے میں مصروف ہیں، انہوں نے ‘نادیہ انیشیٹو’ نامی سماجی تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر ڈینس مکویگے
کانگو کے 63 سالہ سماجی کارکن ڈینس مکویگے افریقہ کے پسماندہ ملک میں تشدد، جنگ اور خواتین کے استحصال جیسے جرائم کی روک تھام کے لیے کوشاں ہیں۔
ڈینس مکویگے نے حکومت کی توسط سے 1991 میں ایک ایسا ہسپتال بنایا جو خصوصی طور پر گینگ ریپ اور جنسی تشدد کی شکار خواتین کو بہتر اور جلد علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
ڈینس مکویگے نے اسی ہسپتال میں کانگو میں دوسری خانہ جنگی یعنی 1998 کے دوران باغیوں اور جنگجو کی جانب سے گینگ ریپ، جنسی تشدد اور استحصال کی شکار ہونے والی ہزاروں خواتین کا علاج کیا۔
وہ اس وقت بھی خواتین کے خلاف جنسی تشدد، استحصال اور ریپ کی روک تھام کے لیے کام کر رہے ہیں، انہیں نوبیل انعام سے قبل بھی متعدد ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔