بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل اپوزیشن امیدواروں کی گرفتاریاں
بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے حکومت پر عام انتخابات سے قبل امیدواروں اور ان کے تقریباً 2 ہزار کارکنوں کو گرفتار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس اقدام کو انتخابی مہم متاثر کرنے کی کوشش قرار دے دیا۔
خبرایجنسی ( اے ایف پی) کی رپورٹ کے مطابق بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے کم از کم ایک ہزار 9 سو 72 پارٹی عہدیداران اور کارکنوں کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پولنگ سے محض ایک ماہ قبل ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بی این پی کے مطابق انتخابات سے قبل کارکنان کی گرفتاریاں انتخابی مہم کومتاثر کرنے کی کوشش ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی 30 دسمبر کو ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا پر بدعنوانی کے الزامات اور سزا کے بعد انتخابات سے چند روز قبل ہی اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریاں اپوزیشن کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں : بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو 5 سال قید کی سزا
بی این پی کے ترجمان رضوی احمد کا کہنا تھا کہ پارٹی کا اکثر انتظامی عملہ نومبر کے اختتام سے لے کر اب تک پولیس کی تحویل میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ پولیس نے ہماری پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف سیکڑوں جعلی مقدمات دائر کر رکھے ہیں‘۔
ایک اور پارٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل اپوزیشن کے 11 انتخابی امیدواروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پارٹی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ’ان میں سے 6 اب تک جیل میں ہیں‘۔
اس حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ گرفتار شدہ افراد بعض مقدمات میں مبینہ تعلق کی وجہ سے پولیس کو مطلوب تھے۔
یہ بھی پڑھیں : بنگلہ دیش: خالدہ ضیاء کی رہائی کا فیصلہ معطل
تاہم رضوی احمد نے پولیس کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ کریک ڈاؤن حکومتی پارٹی کی جانب سے مخالفین کو دھمکانے کا سیاسی ’ بلیو پرنٹ‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت عدم برابری کی بنیاد پر انتخابات کروانا چاہتی ہے ، یہ گرفتاریاں لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے ہیں تاکہ وہ ووٹ دینے کے لیے باہر نہ نکلیں‘۔
اپوزیشن نے چٹاگانگ میں پولیس حکام کو عوامی لیگ کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تاہم پولیس کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ خالدہ ضیا کو گزشتہ مہینے بنگلہ دیش کی عدالت نے عطیات کی رقم جمع کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ایک اور مقدمے میں 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اس حوالے سے خالدہ ضیا کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ الزامات حسینہ واجد کی سیاست کو درپیش خطرات کے تحت عائد کیے گئے ہیں۔
پارٹی عہدیداران کے مطابق خالدہ ضیا کے بیٹے کو ان کی غیر حاضری میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ سیکڑوں حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
انتخابات میں صرف ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ جانے کے باوجود بی این پی نےحسینہ واجد کے مد مقابل متبادل امیدوار کا نام سامنے نہیں لایا۔
خیال رہے کہ 1990 سے لےکر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔
حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے درمیان ملکی معاملات چلانے کےلیے نگران حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔