کرکٹ کے شہنشاہ، یاسر شاہ!
پاکستان 49 سال بعد نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پہلی بار ہوم سیریز تو ہار گیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین احسان مانی سے لے کر وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری تک، سب کو جس لمحے کا انتظار تھا، وہ بالآخر آگیا، یعنی یاسر شاہ نے سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں 200 وکٹیں لینے کا 82 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔
8 دہائی قبل جب یہ ریکارڈ قائم ہوا تھا تو دوسری جنگِ عظیم بھی شروع نہیں ہوئی تھی، سوویت یونین اپنے عروج پر تھا، چینی بقول اقبال ’گراں خواب‘ تھے اور پاکستان تو کیا، قراردادِ پاکستان بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔
اس طویل عرصے میں دنیا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے مرلی دھرن کو دیکھ چکی، ’صدی کی بہترین گیند‘ پھینکنے والے شین وارن بھی آگئے، ایک ہی دن میں 10 وکٹیں حاصل کرنے والے انیل کمبلے بھی ماضی کا قصہ بن گئے، بلے بازوں کے لیے دہشت کی علامت مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر، کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی واش کا زمانہ بھی لد گیا۔
پاکستان کے عظیم ترین باؤلرز وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر اور عمران خان بھی کرکٹ تاریخ میں اپنے حصے کا کردار ادا کرکے چلے گئے لیکن کلیری گریمٹ کا 36 ٹیسٹ میچز میں 200 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ جُوں کا تُوں موجود رہا اور ان تمام بڑے ناموں کا منہ چڑاتا رہا یہاں تک کہ پاکستان کے 32 سالہ یاسر شاہ نے اپنے 33ویں ٹیسٹ میں 200واں شکار کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا!
یاسر شاہ قومی کرکٹ کے منظرنامے پر بہت دیر سے ابھرے کیونکہ ان کی نوجوانی کے دن وہ تھے جب دنیا پر آف اسپنرز کا راج تھا۔ پاکستان کے سعید اجمل دنیا کے نمبر ایک باؤلر تھے اور ہر رینکنگ میں آف اسپنرز کا ہی غلبہ دکھائی دیتا تھا۔ لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قانون نے آف اسپن باؤلرز کے لیے ایک بڑی مشکل کھڑی کردی۔ سعید اجمل اور محمد حفیظ سمیت کئی باؤلرز کے باؤلنگ ایکشن غیر قانونی قرار پائے اور یوں موقع ملا یاسر شاہ کو، جو آگئے اور چھا گئے!
ابوظہبی کے اسی میدان پر 4 سال قبل یاسر شاہ نے آسٹریلیا کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا، 7 وکٹوں سے آغاز کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یہیں سے وہ عظیم لیگ اسپنر شین وارن کی نظروں میں آگئے کہ جن کی نگاہِ دُور اندیش نے تبھی بھانپ لیا کہ یاسر ’اگلی بڑی چیز‘ (next big thing) ہے۔ وہ یاسر شاہ سے ملنے کے لیے متحدہ عرب امارات بھی آئے، انہیں کارآمد ٹپس بھی دیں اور جب جب یاسر پرفارم کرتے ٹوئٹر پر شین وارن کا تعریفی پیغام موجود پایا۔
یاسر نے بعد میں ثابت بھی کیا کہ وہ وارن کی نظرِ کرم کے حقدار تھے۔ صرف 9 میچز میں 50 اور 17 میچز میں 100 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کرکے انہوں نے نئے قومی ریکارڈز بنائے اور پاکستان کی کئی یادگار کامیابیوں میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے یاسر شاہ کچھ ہی عرصے میں دنیا کے بہترین باؤلر بھی بنے بلکہ شین وارن کی بعد پہلی بار جو لیگ اسپنر ورلڈ نمبر ون بنا تو وہ یاسر شاہ ہی تھے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف ابھی پچھلے ٹیسٹ میں ہی یاسر شاہ نے صرف 41 رنز دے کر اننگز میں 8 وکٹیں حاصل کی تھیں، جو کسی ایک اننگز میں اب تک کی اُن کی بہترین انفرادی کارکردگی ہے لیکن سب سے یادگار پرفارمنس بلاشبہ وہ تھی جو انہوں نے انگلینڈ میں دکھائی۔ جولائی 2016ء میں لارڈز کے تاریخی میدان پر یاسر شاہ نے 141 رنز دے کر 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور پاکستان کو ایسی کامیابی سے ہمکنار کیا، جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔
اپنے مختصر سے کیریئر میں یاسر شاہ اب تک 16 مرتبہ اننگز میں 5 اور 3 مرتبہ میچ میں 10 وکٹوں کے کارنامے انجام دے چکے ہیں۔
لارڈز اور دبئی کے علاوہ یاسر کے کیریئر کے چند یادگار لمحات میں سے ایک 2016ء میں ابوظہبی میں ہی 10 وکٹیں لے کر پاکستان کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کامیابی دلانا بھی شامل تھا۔
اس سے بھی بڑھ کر مئی 2017ء میں ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر کھیلا گیا وہ یادگار ٹیسٹ تھا جس میں یاسر شاہ نے قومی ٹیم کو آخری دن کی آخری گیند پر آخری وکٹ حاصل کرکے فتح دلائی۔ یہ فتح صرف میچ میں ہی نہیں بلکہ سیریز میں بھی ملی اور یوں پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی مرتبہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ویسٹ انڈیز میں سیریز جیتے میں کامیاب ہوئی۔
یاسر شاہ کا کمال صرف یہ نہیں کہ انہوں نے ایسے ریکارڈز توڑے کہ جن کے ٹوٹنے کا گمان بھی نہیں تھا بلکہ ان کا اصل کارنامہ لیگ اسپن باؤلنگ کو پھر زندہ کرنا ہے۔
یہ کام تاریخ میں صرف شین وارن ہی کرپائے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں میں استاد شاگرد والا رشتہ ہے۔ اب انتظار ہے کہ یاسر شاہ وارن کی طرح ’صدی کی بہترین گیند‘ بھی پھینکیں۔ اس میں کامیاب کب ہوتے ہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔