'گناہ ٹیکس' آخر ہے کیا؟
گزشتہ روز قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) کی جانب سے سگریٹ نوشی کرنے والے افراد پر ’گناہ ٹیکس' عائد کیے جانے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد سے ٹوئٹر پر لفظ 'گناہ' کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وزیر فیصل واوڈا نے ٹوئٹ کیا کہ ’میں خود ایک چین اسموکر ہوں اور حکومت کی جانب سے سگریٹ نوشی کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہتا ہوں، کیونکہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن اس کے لیے ’سِن ٹیکس‘ کا لفظ نامناسب ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’اگر یہ گناہ ہے تو ہم اصل گناہوں کو کیا نام دیں گے‘۔
حکومت کی جانب سے 'گناہ ٹیکس' کے اعلان کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان پربا ہے لیکن ’گناہ ٹیکس‘ کی اصطلاح درحقیقت تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے متعارف نہیں کروائی گئی۔
بلومبرگ کے مطابق برطانیہ کی جانب سے 1643 میں شراب پر ایکسائز ٹیکس عائد کیا گیا تھا جسے ’سِن ٹیکس‘ کی سب سے پہلی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی مضمون کے مطابق امریکا میں شراب نوشی، تمباکو نوشی اور جوا کھیلنے کی طویل تاریخ ہے جس کا آغاز 1791 میں کیا گیا تھا۔
سِن ٹیکس (اسم)
امریکی آن لائن ڈکشنری 'میریم ویبسٹر' میں سِن ٹیکس کی تعریف کچھ یوں ہے ’یہ ٹیکس ان اشیا یا سرگرمیوں پر عائد کیا جائے جو گناہ یا نقصان دہ سمجھی جاتی ہوں, جیسا کہ تمباکو نوشی، شراب نوشی یا جوا کھیلنا۔'
ڈکشنری کے مطابق ’سِن ٹیکس‘ کی اصطلاح کے استعمال کے شواہد 1957 سے ملے ہیں۔
وہ ممالک جہاں ’گناہ ٹیکس‘ عائد ہے
وزارت قومی صحت سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد حفیظ نے ڈان کو بتایا کہ دنیا کے تقریبا 45 ممالک میں تمباکو اور شکر دار مشروبات پر ٹیکس عائد ہے، جن میں متحدہ عرب امارات اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گناہ ٹیکس ایک بین الاقوامی اصطلاح ہے جسے ان اشیا پر عائد کیا جاتا ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں، جیسے تمباکو، کینڈی، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، کافی اور چینی۔
گزشتہ برس اکتوبر میں متحدہ عرب امارات نے سافٹ ڈرنکس اور سگریٹ پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ نقصان دہ اشیا کے استعمال کو کم کیا جائے اور ریاستی آمدن کے نئے ذرائع متعارف کروائے جائیں۔
مزید پڑھیں: سگریٹ کی پیداوار میں نمایاں اضافہ
متحدہ عرب امارات میں کاربونیٹڈ اور میٹھے مشروبات پر 50 فیصد ٹیکس اور انرجی ٹیکس اور تمباکو کی مصنوعات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر اسد حفیظ کا کہنا تھا کہ ’تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں ہیلتھ کیئر سروسز پر اسی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت میں گٹکا اور پان مصالحہ پر ’گناہ ٹیکس‘ عائد کیے گئے ہیں اور اس سے جمع ہونے والے پیسوں کو صحت کے شعبے میں خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بیماریاں پیدا کرتی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔
کیا 'گناہ ٹیکس' رویے کو متاثر کرتا ہے؟
بلومبرگ کے مطابق عام طور پر ’گناہ ٹیکسز‘ رویوں میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ’یہ کہا جاتا ہے کہ بعض رویوں سے بیرونی منفی تاثر پیدا ہوتے ہیں، جو معاشرے پر اضافی مالی بوجھ کا باعث بنتے ہیں‘۔
اس نظریے کے مطابق یہ منفی رویے معاشرے میں دیگر رویوں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس عائد کیے جانے کے مستحق ہیں۔
مضمون کے مطابق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن، عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) اور مایو کلینک کے ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکسز رویے تبدیل کرنے اور صحت میں بہتری لانے کے لیے کافی اہم ہیں۔
بزنس انسائیڈر کے آرٹیکل کے مطابق تاہم ابھی کافی ثبوت نہیں ہیں کہ ایسے ٹیکسز ذیابیطس یا موٹاپے میں کمی کا باعث بنتے ہیں، بعض تحقیقات میں لوگوں کی خوراک میں چینی کی زیادہ مقدار اور ذیابیطس کے درمیان تعلق ہے۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں 2013 میں کی گئی تحقیق میں گزشتہ ایک دہائی میں 175 ممالک کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق عوام کی خوراک میں چینی کی زیادہ سطح کا تعلق ٹائپ 2 ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ای سگریٹ انسانی خون کے لیے خطرہ
دیگر تحقیقات میں بتایا گیا کہ موٹاپا بھی ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھادیتا ہے۔
2017 میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تحقیق میں بتایا گیا کہ میٹھے مشروبات پر عائد کیے گئے 20 فیصد ٹیکس کی وجہ سے چین میں موٹاپا اور وزن کی زیادتی میں 3 فیصد کمی آئی، اس کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں نوجوان افراد پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔
دی گارجین نے 2017 میں رپورٹ کیا کہ میکسیکو اور امریکا میں میٹھے مشروبات کی خریداری سے متعلق کیے گئے تجزیے کے مطابق ٹیکس متعارف کرنے کے پہلے سال میں ان مشروبات کی خریداری میں 5.5 فیصد کمی جبکہ دوسرے سال میں 9.7 فیصد کمی آئی، یعنی دو سال کے عرصے میں اوسطاً 7.6 فیصد کمی آئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ میکسیکو کی 70 فیصد سے زائد آبادی موٹاپے کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ خوراک میں شامل چینی کا 70 فیصد حصہ میٹھے مشروبات پر مشتمل ہونا ہے۔