• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

میڈیا ہاؤسز ورکرز کو تنخواہ دیں یا جیل جانے کو تیار ہوں، سپریم کورٹ

شائع November 30, 2018
—فائل/فوٹو:ڈان نیوز
—فائل/فوٹو:ڈان نیوز

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے میڈیا ہاؤسز کو ورکرز کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے آخری مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ورکرز کو تنخواہیں ادا کریں یا جیل جانے کو تیار ہوجائیں جبکہ شہریار تاثیر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پاس) کے صدر طیب بلوچ کی درخواست پر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی اور تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا ہاوسسز کو تنخواہیں ادا کرنے کی آخری مہلت دے دی اور کہا کہ ورکرز کو تنخواہیں ادا کریں یا جیل جانے کو تیار ہو جائیں۔

میڈیا ہاؤسز کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ آخری مہلت دے رہے ہیں ایرئیر آف ریونیو ریکوری ایکٹ کے تحت کارروائی کریں گے اس لیے میڈیا ہاوسسز کے وکلا اس ایکٹ کو پڑھ لیں اور تنخواہیں ادا نہیں ہوئیں تو کارروائی کی جائے گی۔

ورکرز کی جانب سے طیب بلوچ، پرویز شوکت اور آصف بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں:تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور نوکریوں سے نکالنے پر صحافیوں کا احتجاج

عدالت نے سوال اٹھایا کہ جن ملازمین نے کام کیا ہے ان کو تنخواہیں نہیں ملیں بتائیں ان کا کیا قصور ہے، تنخواہ حاصل کرنا ورکرز کا حق ہے اور اس موقع پر نجی ٹی وی کیپٹل ٹی وی کے مالکان کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے 5 دسمبر تک مہلت دی۔

عدالت نے مذکورہ ٹی وی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ بیان حلفی اور ورکرز کی تنخواہوں کے چیک جمع کرائے جائیں۔

عدالت نے ڈیلی ٹائمز، نوائے وقت، دی نیشن، بول نیوز، سیون نیوز، اسٹار ایشیا، اور خبریں کو 15 دسمبر تک کی مہلت دی جبکہ اے آر وائی کو اپنے دو سابق ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

اس موقع پر میڈیا ورکرز کے نمائندے پرویز شوکت نے کہا کہ ورکرز کے پاس بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ادائیگیاں نہیں ہوں گی تو چینل بند کر دوں گا، مالک جب تنخواہ ادا نہ کرنے کا کہتا ہے تو ویڈیو کیوں نہیں بناتے۔

یہ بھی پڑھیں:صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر اخبارات اور چینلز کو نوٹس

سپریم کورٹ میں ڈیلی ٹائمز کے نمائندے نے کہا کہ 2 ماہ کی ادائیگیاں کر دی ہیں اور مزید 2 ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ بھیک مانگیں، قرض لیں لیکن ورکرز کو تنخواہیں ادا کریں اور اگر فنڈز نہیں ہیں تو اخبار بند کر دیں۔

شہریار تاثیر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیلی ٹائمز 15 دسمبر تک ورکرز کو ادائیگیاں کرے ور نہ مالک کو قانون کے تحت گرفتار کروا سکتے ہیں، ادائیگیاں نہ ہوئی تو عدالتی حکم کی عدولی پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کی جیو کے ملازمین کو فوری تنخواہیں ادا کرنے کی ہدایت

چیف جسٹس نے کہا کہ ادائیگیاں نہیں کرنی تو جیل جائیں، ادائیگیاں کر کے کسی پر احسان نہیں کرنا، عزت دار شخص کے لیے ایک بار کافی ہوتی ہے، بنٹیلے کاریں فروخت کرکے تنخواہیں ادا کریں۔

عدالت نے اس موقع پر ڈیلی ٹائمز کے مالک شہر یار تاثیر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔

پرویز شوکت نے کہا کہ کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات نے ورکرز کو ادائیگیاں نہیں کیں، مالکان عدلیہ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پوچھا مالکان عدلیہ کے بارے میں کیا بات کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:صحافیوں کو تنخواہیں نہ دینے والے میڈیا مالکان سپریم کورٹ میں طلب

پرویز شوکت نے کہا کہ مالکان کہتے ہیں تنخواہیں چیف جسٹس سے لے لیں اگر ملتی ہے تو تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ تنخواہیں ورکرز کا حق ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ورکرز کی جانب سے تنخواہیں کی عدام ادائیگی کا دعویٰ غلط ہے جس پر نمائندہ کیپٹل ٹی وی نے کہا کہ ورکرز کو ایک ماہ کی ادائیگی کر دی ہے، ورکرز کے دعوے غلط نہیں ہے لیکن مبالغہ آرائی ضرور ہے۔

اس موقع پر نوائے وقت کی سربراہ رمیزہ نظامی نے کہا کہ ملازمین کو ستمبر کی تنخواہیں ادا کر دی ہیں اور باقی بھی ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاہم عدالت نے 15 دسمبر تک باقی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رمیزہ بیٹی کو جیل نہیں بھیج سکتے لیکن توہین عدالت کی کارروائی کر سکتے ہیں جس پر ایک صحافی نے کہا کہ عدالت نے جیل نہ بھیجنے کا تہیہ کر کے ریلیف دیا ہے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ مجید نظامی کی بیٹی کو عزت دی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 30, 2018 07:17pm
سپریم کورٹ میں ان تمام معاملات کے باوجود ایک کے بعد ایک کرکے میڈیا ہائوسسز سے کارکنوں کو فارغ کیا جارہا ہے۔ پورے پورے بیورو بند کیے جارہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024