انسداد تجاوزات آپریشن: ’ایک ہزار 4 سو 70 دکانداروں کو متبادل جگہ دی جائے گی‘
کراچی کے میئر وسیم اختر نے کہا ہے کہ انسداد تجاوزات مہم کے درمیان متاثر ہونے والے کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے 3 ہزار 5 سو 75 کرائے داروں میں سے ایک ہزار 4 سو 70 دکانداروں کو کاروبار کے لیے متبادل جگہ فراہم کریں گے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے انسداد تجاوزات آپریشن سے متاثر دکانداروں کی بحالی کے معاملے پر شہر قائد میں کے ایم سی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وسیم اختر کا کہنا تھا کہ کے ایم سی دکانداروں اور تاجروں کو پریشانی میں نہیں دیکھنا چاہتی۔
میئر کراچی کا کہنا تھا کہ متاثرہ دکانداروں کو صدر پارکنگ پلازہ، کے ایم سی مارکیٹ ایم ٹی خان روڈ، لائنز ایریا میں پارکنگ پلازہ کے سامنے، شہاب الدین مارکیٹ صدر، رنچھوڑ لائن مارکیٹ، فریئر مارکیٹ، کھڈا مارکیٹ اور سپر مارکیٹ لیاقت آباد میں متبادل جگہ دیں گے۔
مزید پڑھیں: کراچی: ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ایک ہزار سے زائد دکانیں مسمار
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ بقیہ 2 ہزار 105 متاثرہ دکانداروں کو بحالی کے دوسرے مرحلے میں جگہ فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’اس سمری پر عمل درآمد کے لیے اسے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھیج دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد ہی اسے منظور کرلیا جائے گا‘۔
میئر کراچی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان دکانداروں اور تاجروں کو تنہا اور بے بس نہیں چھوڑیں گے اور کے ایم سی ان کی بحالی کے لیے تب تک کام کرے گی جب تک انہیں اپنے کاروبار کے لیے متبادل جگہ نہیں مل جاتی‘۔
میئر کراچی کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں یہ اداروں کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ فٹ پاتھوں، پارکوں اور نالوں پر دکانیں الاٹ کیں، یہ شہر اس طرح کے مزید تجاوزات برداشت نہیں کرسکتا‘۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: تجاوزات گرانے کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، موٹرسائیکلیں اور کار نذر آتش
ایک سوال کے جواب میں وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اس انسداد تجاوزات مہم میں کے ایم سی اکیلی نہیں جبکہ صوبائی حکومت، ضلعی انتظامیہ، ضلعی میونسپل کمیٹیز، ایس ایس جی سی، کے ڈی اے، ڈی ایم سیز، کے الیکٹرک، رینجرز اور پولیس سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے خبردار کیا کہ ان افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوگی جو تجاوزات قائم کرنے میں ملوث پایا گیا۔
یہ خبر 30 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں