• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کے بعد کمی کا رجحان

شائع November 30, 2018
ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی—فائل فوٹو
ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی—فائل فوٹو

کراچی: انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بدترین کمی سے امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 142 روپے کو چھونے کے بعد واپس 137 روپے 70 پیسے پر آگیا۔

ڈان نیوز کے مطابق جمعے کو مارکیٹ کا آغاز ہوا تو اوپن بینک میں ڈالر کی قیمت میں اچانک 8 روپے اضافہ ہوا اور روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر 142 روپے تک جا پہنچا جبکہ کچھ بینکوں میں ڈالر مزید 2 روپے اضافے کے ساتھ 144 روپے تک ٹریڈ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اوپن مارکیٹ میں بھی دیکھی گئی اور ایک ڈالر 138 روپے میں خرید جبکہ 144 روپے میں فروخت ہوا۔

تاہم بعد ازاں اسٹیٹ بینک کی جانب سے اقدامات اٹھائے گئے، جس کے بعد مارکیٹ کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر واپس 137 روپے 70 پیسے پر آگی۔

مزید پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر 136 روپے تک پہنچ گیا

اس سے قبل ڈالر کی قیمت میں اضافے پر کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز مارکیٹ بند ہونے تک ڈالر 134 روپے تک ٹریڈ ہوا تھا لیکن اچانک روپے کی قدر میں کمی کردی گئی، جس سے ڈالر کی قیمت 142روپے تک پہنچ گئی۔

ڈیلرز کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے لیے رکھی گئی شرائط کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ روپے کی قدر میں اچانک کمی نے مارکیٹ میں بے چینی کی صورتحال پیدا کردی کیونکہ ٹریڈرز امید کر رہے تھے کہ اوپن مارکیٹ 143 سے 144 کے درمیان کھلے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں یہ کمی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات کا نتیجہ ہوسکتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کا تسلسل ہے۔

ظفر پراچہ نے مطالبہ کیا کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کا باضابطہ اعلان کرے تاکہ کرنسی ڈیلر کے درمیان اس ہیجانی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔

ڈالر کی قدر میں اضافے پر تجزیہ کار احسن محنتی کا کہنا تھا کہ انٹربینک میں اس طرح ڈالر کی قیمت بڑھنا متوقع نہیں تھا کیونکہ ملک ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام میں شامل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’ماضی قریب میں روپے کی قدر میں کمی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی روکے گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈالر کی قدر میں اضافے کی خبر پاکستان کے لیے اچھی نہیں، اس سے ملک کے درآمدی بل میں بھی اضافہ ہوگا‘۔

احسن محنتی کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو کہا گیا تھا کہ بیل آؤٹ پیکج کے لیے روپے کی قدر 145 روپے فی ڈالر اور شرح سود 10.5 فیصد تک لائی جائے اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر عمل کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے کے بعد بھی ڈالر کی قدر میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا تھا اور ڈالر کی قدر 136 روپے تک جا پہنچی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم، آئندہ چند ماہ میں بہتری کی امید

اکتوبر کے آغاز میں ڈالر کی قیمت 124 روپے تک تھی جو بعد ازاں 11 روپے 70 پیسے اضافے کے ساتھ 136 تک پہنچی اور گزشتہ 2 ماہ سے مارکیٹ میں ڈالر 133 سے 136 کے درمیان ہی ٹریڈ ہورہا تھا۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اور جولائی کے وسط میں روپے کی قدر اچانک 7 روپے کم ہو گئی تھی، جس سے ڈالر 131 روپے تک جا پہنچا تھا۔

تاہم 25 جولائی کو عام انتخابات کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہوا جبکہ ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی تھی اور جولائی کے اختتام تک ایک ڈالر، 124 روپے تک پہنچ گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024