حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کررہی، سردار اختر مینگل
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے صدر سردار اختر مینگل نے لاپتہ افراد کا سیاسی حل نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مسائل ڈیم اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر سے حل نہیں ہوں گے۔
لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو لاپتہ افراد کے معاملے کو حل نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ان کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کررہی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بی این پی لاپتہ افراد کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی اور اس حوالے سے صوبائی اسمبلی میں ایک قرار داد بھی پیش کی جائے گی‘۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کی ماہانہ رپورٹ جمع، ستمبر میں 74 کیسز درج ہوئے
سرادار اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے ایک سال کا عرصہ ہے اور بی این پی اس دوران خاموش نہیں بیٹھے گی بلکہ مسئلے کے حل کے لیے مسلسل حکمرانوں پر دباؤ ڈالتی رہے گی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’لاپتہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف سب کے سامنے قانونی کارروائی کی جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سرد موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھی ماؤں اور بہنوں کی داد رسی کرے۔
اختر مینگل نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ نے سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی فائل کی لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کا معاملہ: 'پولیس رپورٹس قصہ کہانیوں پر مبنی ہیں'
سربراہ بی این پی مینگل کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے علاوہ وہ اپنی جماعت کے دیگر مطالبات بھی وفاقی حکومت کو ارسال کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماما قدیر بلوچ، بلوچ خواتین اور مرد حضرات کے ہمراہ پیدل 2 ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے کوئٹہ سے کراچی پہنچے تاکہ لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی نے اس معاملے پر نہ صرف تمام مظاہروں میں شرکت کی بلکہ لانگ مارچ میں بھی حصہ لیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب حکومت تشکیل دی جارہی تھی تو دیگر سیاسی جماعتوں نے حکومت کو وزرا کی فہرست تھمائی جبکہ ہم نے حکومت کو لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاق میں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی، بی این پی میں معاہدہ
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے رکنِ قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی مثبت ردعمل موصول نہیں ہوا۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ رکنِ صوبائی اسمبلی نصیر شاہوانی اور احمد نواز بلوچ، ماما قدیر اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی موجود تھے۔
یہ خبر 29 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔