افسانہ: ماں کہتی تھی
ماں کہتی تھی عورت وہ ہوتی ہے جس کی محبت سمندر کی لہروں کی طرح ٹھاٹھے مارے، طوفان کی طرح زور آور ہو جبکہ مرد وہی ہے جس کی ایک نگاہ عورت کو تھما کر رکھ دے۔
ماں کہتی تھی اچھی بیٹیاں روتی نہیں ہیں، شکوہ نہیں کرتیں، ضد نہیں کرتیں۔ کوئی کھلونا ٹوٹ جائے تو خاموش رہتی ہیں کوئی چیز نہ ملے تو صبر کرتی ہیں۔ اچھی بیٹیاں صابر ہوتی ہیں۔ انہیں سب سہنا چاہیے، برداشت کرنا چاہیے۔
اسی لیے میں نے آج تک کسی سے کوئی شکایت نہیں کی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے کسی سے کبھی کوئی گِلہ ہی نہیں رہا۔ یہ گلِے میرے اندر پلتے رہے ہیں۔ یہ میری ہتھیلیاں دیکھتے ہو؟ ان پر بے شمار بے ربط مدہم لکیریں ہیں۔ یہ وہ ثبت شدہ آنسو ہیں جو میں نے سرد راتوں میں سسکتے ہوئے صاف کیے۔
میری ماں نے 13 برس کی عمر میں پوچھا تھا، یہ تیری آنکھوں کے گرد حلقے کیوں پڑگئے ہیں؟ ٹھیک سے سوتی نہیں تُو کیا؟ اور یہ راز مجھ پر 16 برس کی عمر میں کھُلا کہ میری آنکھوں کے گرد کے حلقے میری روح کے زخم ہیں۔
میرے ماتھے پر پہلی لکیر 17 برس کی عمر میں پڑی تھی، یہ وہ ٹیس تھی جو جِلد کی سرحد پھلانگ کر ضبط کا بندھن توڑ آئی تھی۔ میں ایک بات بتاؤں؟ تلخ یاداشتوں کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ٹیسیں بن جاتی ہیں۔
تم نے کبھی چیخ کو سسکی بن کر نکلتے دیکھا ہے؟ ایسا تب ہوتا ہے جب آپ کے کندھوں پر بے پناہ بوجھ پڑجائے اور آپ کا شکوہ آپ کے پیاروں کی ذلت سمجھا جائے۔ آپ کرب سے، بے بسی سے چیختے نہیں ہیں اور یہ چیخ سسکی بن جاتی ہے۔
میں نے عمر تو کم گزاری ہے مگر مجھ پر گزری بہت ہے۔ یہ سوچیں ہیں جنہوں نے مجھے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا۔
تم نے ایک بار کہا تھا کہ میرے سارے وجود میں ایک جھجک ہے۔ تم سچ کہتے ہو۔ بلکل ہے۔ مجھے آج تک کھل کر ہنسنے نہ دیا گیا۔ میرا قہقہہ میرے گھر کی دیواروں سے کبھی نہیں ٹکرایا۔ ماں کہتی تھی اچھی بیٹیاں اُونچا نہیں ہنستی۔ مجھے آج تک ضبط کے سوا کوئی سبق نہیں ملا۔ سو میری یہ ساری جھجک میرے ضبط کے باعث ہے۔
مگر۔۔۔ مگر جب سے تم آئے ہو، مجھے اُمید ملنے لگی ہے۔ مجھے محبت سے بے حد ڈر لگتا تھا۔ اب بھی لگتا ہے مگر کچھ جوئے ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر دل گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ ہے، سب کچھ لگا دو۔ دل کو جیتنے کی امید ہو نا ہو یہ یقین ضرور ہوتا ہے کہ ایسی بازی پھر کبھی نہیں آئے گی۔ تم میرا وہ جوا ہو۔
میں نے یہ آج تک کسی کو نہیں بتایا مگر میرا دل کہتا تھا کہ کبھی نہ کبھی کوئی ایسا آئے گا جس کے سامنے میں جی بھر کر روؤں گی اور وہ میرا ایک آنسو بھی ضائع نہ جانے دے گا۔ جو مجھے اس قدر زور سے گلے لگائے گا کہ میرے وجود کے برسوں سے ٹوٹے، بکھرے حصے جُڑ جائیں گے۔ میرے دل کی دراڑیں بھر جائیں گی۔ یہ وہ ہوگا کہ جسے میں جی بھر کر سب کی شکایت لگاؤں گی۔ اس لیے نہیں کہ وہ میرا بدلہ لے، بلکہ اس لیے کہ وہ مجھے وہ تھپکی دے جس کے بعد دنیا کی سب سے بڑی شکست بھی چھوٹی لگنے لگتی ہے۔
مجھے ہمدردی نہیں، شاباشی چاہیے۔
مگر ماں سے سنا تھا، عورت لہروں میں محبت کرتی ہے۔ سمندر کی ٹھاٹے مارتی لہروں کی طرح۔ وہ محبت کرتے تھکتی نہیں، ہارتی نہیں، رکتی نہیں۔ وہ اپنا وجود، اپنا دل پانی کی لہروں کی طرح مرد کی محبت کے ساحل سے ٹکراتی رہتی ہے۔ بارہا ساکت ساحل پر ٹکراتے رہنے کے باوجود، اپنی بے قدری کے باوجود وہ رکتی نہیں۔ ٹلتی نہیں۔
اور ساحل چاہے جتنا بھی گداز ہوجائے، یہ کبھی لہروں کے سارے پانی کو خود میں جذب نہیں کرسکتا۔ اس کی فطرت میں ہے محبت ٹھکرا دینا۔
اس نے سکھایا تھا کہ مرد سے ایسی محبت کی اُمید مت رکھنا۔ مرد کی محبت لہروں میں نہیں ہوتی۔ یہ دائروں میں ہوتی ہے۔ جیسے چاند کا سفر ہوتا ہے۔ کبھی کمزور، بے طاقت اور کبھی جوبن پر۔
اسے بنایا ایسا گیا ہے کہ وہ لگاتار ایک ہی مقدار اور معیار کی محبت نہیں کرسکتا۔ اس کی محبت چاند کی طرح سفر کرتی ہے۔ کبھی بہت مدہم، نحیف، کبھی عید کے چاند جیسی مبارک، کبھی چودھویں کے چاند جیسی چمکدار اور طاقتور۔
وہ سمجھاتی تھی کہ کبھی تمہیں ایسا لگے کہ تمہارے مرد کی محبت میں کمی آگئی ہے تو وہم ذہن میں نہ لانا، اسے وقت دینا، موقع دینا اور ایک رات آئے گی جب وہ چودھویں کے چاند کی مانند دمکے گا اور تمہاری تمام تر آرزؤوں کو پوری کردے گا۔
تم نے دیکھا کیسے چودھویں کی رات کو سمندر کی لہریں دیوانی ہوئی پھرتی ہیں؟ وہ اپنے اندر بسنے والی ہر زندگی سے بے نیاز ہوجاتی ہیں۔ وہ بے توازن انسانوں کو ڈبو دیتی ہیں، کاہل مچھیروں کو ہلاک کردیتی ہیں۔ خود پر نازاں سیپیوں کو ساحل سے پھینک باہر کرتی ہیں، اور بس خود کو اس چودھویں کے چاند کی محبت میں دیوانہ کیے پھرتی ہیں۔
میں نے وہ رات دیکھی ہوئی ہے اور مجھے پھر اس کا انتظار ہے۔ مجھے تمہاری محبت کا شک نہیں۔ مگر میں عورت ہوں، محبت کرتے تھک نہیں سکتی۔ پلٹ نہیں سکتی، لیکن منتظر رہنا میرے نصیب میں ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں