• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کراچی: فاروق ستار اور آفاق احمد کی ملاقات

شائع November 21, 2018
فاروق ستار اور آفاق احمد گلے مل رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
فاروق ستار اور آفاق احمد گلے مل رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما فاروق ستار اور مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد کی کراچی میں ملاقات ہوئی ہے جہاں انہوں نے سیاست سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات کراچی کے علاقے ملیر میں جناح اسکوائر پر یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور جلوس کے دورے کے دوران ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم: 1992ء سے 2018ء تک

اس موقع پر کراچی کے سخت مخالف سیاسی گروپوں کے رہنما فاروق ستار اور آفاق احمد ایک دوسرے سے گرم جوشی سے گلے ملے اور خیریت دریافت کی۔

ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے مقامی سیاست اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا، واضح رہے کہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ملاقات کب ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ الطاف حسین نے زمانہ طالب علمی میں 11 جون 1978 کو چند دوستوں کے ساتھ مل کر سندھ میں مہاجر سیاسی پارٹی کی تشکیل کرتے ہوئے ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کا بنیاد رکھی۔

جلد ہی اے پی ایم ایس او دائیں بازوں کی طلبہ تنظیم کے طور پر ناکام ہوگئی، جس کے بعد اسی کے پیٹ سے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) کا جنم ہوا، جو آگے چل کر سندھ کی قوم پرست پارٹیوں سے مذاکرات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے نام میں ضم ہوگئی۔

جبکہ اسی دوران 90 کی دہائی کے آغاز میں اے پی ایم ایس او کے بانی رہنماؤں الطاف حسین اور آفاق احمد کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے باعث دونوں کے راستے جدا ہوئے اور دونوں کی سیاسی جماعتوں کو شہر میں مخالف گروپ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

واضح رہے کہ ان دنوں فاروق ستار اور ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور 9 نومبر 2018 کو ایم کیو ایم پاکستان نے ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے خارج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا جس میں رابطہ کمیٹی کے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کو بھیجے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس اور اس کی عدم تکمیل پر بھیجے گئے یاد دہانی نوٹس کے مندرجات سے اراکین کو آگاہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رکن نہیں رہے

رابطہ کمیٹی نے تمام تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ تنظیمی نظم و ضبط اور آئین کی سنگین خلاف ورزیوں، تنظیم میں گروہ بندی اور دیگر سنگین تنظیمی خلاف ورزیوں پر ڈاکٹر فاروق ستار کو تنظیم کی بنیادی رکنیت سے خارج کردیا جائے۔

رابطہ کمیٹی نے تمام کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ آج کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار سے کسی قسم کا میل جول نہ رکھیں، بصورت دیگر ایسا کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے رکنیت خارج کرنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد فاروق ستار نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ 'میڈیا کے ذریعے علم ہوا کہ آج میری ایم کیو ایم سے 39 سالہ رفاقت کو چند ٹھیکداروں نے ختم کردیا، طویل رفاقت کو آمروں، قبضہ گیروں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھایا جن میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں تھی کہ باقاعدہ پریس کانفرنس میں اعلان کرتے۔'

انہوں نے کہا تھا کہ 'بہادرآباد میں قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے عامر خان، کنور نوید، فیصل سبزواری ، وسیم اختر اور خالد مقبول صدیقی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ میری پارٹی رکنیت ختم کرنے کی وجوہات بتاتے۔'

ان کا کہنا تھا کہ وہ رابطہ کمیٹی کے اس نام نہاد فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، ان میں اتنا دم نہیں کہ اس فیصلے کا کا کارکنوں کے سامنے اعلان کرتے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 'یہ فیصلہ غیر آئینی، غیر قانونی اور پارٹی منشور کے خلاف ہے، کسی فریق کو سنے بغیر رکنیت ختم کرنے کی عجلت تھی؟ ایک ہفتے پہلے کہا شوکاز نوٹس دیا ہے، جب میں نے کہا نہیں ملا تو دوسرا نوٹس بھیجا گیا، نوٹس کے بعد طریقہ کار کے مطابق میرا جواب سنا جانا چاہیے تھا۔'

یہ بھی پڑھیں: فاروق ستار کو 'ایم کیو ایم' کی بنیادی رکنیت سے خارج کرنے کا فیصلہ

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر فاروق ستار کا رابطہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے دیا گیا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے انہیں پارٹی کے فیصلہ کرنے والے سب سے بڑے فورم سے نکال دیا تھا۔

فاروق ستار نے 13 ستمبر کو پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر رابطہ کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا اور پارٹی کے فیصلوں کے خلاف کھل کر بات کی تھی۔

اس کے علاوہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کے مقابلے میں تنظیم بحالی کمیٹی قائم کی تھی اور ایم کیو ایم پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر دوبارہ منظم کرنے کےلیے جدوجہد کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلافات رواں سال 5 فروری کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آیا تھا، جس کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی۔

رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی اور ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور 6 دن تک جاری رہنے والے اس تنازع کے بعد رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فاروق ستار کو کنوینئر کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نیا کنوینئر مقرر کردیا تھا۔

12 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو باضابطہ آگاہ کردیا تھا کہ ڈاکٹر خالد مقبول کو پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے۔

بعد ازاں 18 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار گروپ کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں کارکنان کی رائے سے فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر منتخب ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: فاروق ستار: زمانہ طالب علمی سے ایم کیو ایم کی قیادت تک

تاہم بہادر آباد گروپ کی جانب سے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر ماننے سے انکار کردیا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ پہلے الیکشن کمیشن پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیا تھا، جہاں عدالت نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کنوینر برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد معاملات کچھ بہتر ہوئے تھے اور دونوں گروپوں نے انتخابات میں ایک ساتھ حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان شہر قائد سے ماضی کی طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔

بعد ازاں ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے جس سے متعلق وہ اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کر رہے ہیں۔

اس دعوے کے ایک ہفتے بعد ہی ایم کیو ایم پاکستان کے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے 13 ستمبر کو ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی سے استعفیٰ دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024