• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

اسد عمر صاحب، کچھ تو بتا دیں!

شائع November 17, 2018

میں نے ایک طویل عرصے میں اتنے عجیب و غریب آئی ایم ایف مذاکرات نہیں دیکھے۔ مجھے نہیں یاد کہ آخری مرتبہ کب کسی وزیرِ خزانہ نے مذاکرات کے دوران ہی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے حل ہوجانے کا اعلان کیا ہو۔

یہ بھی یاد نہیں آرہا کہ آخری مرتبہ کب ایسا ہوا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ایسے وقت میں شروع ہوئے ہوں جب ایک 'دوست ملک' (اس معاملے میں چین) سے ایک بڑے بیل آؤٹ پیکج کی خبر کا انتظار تھا۔ یقیناً اس خبر کا آئی ایم ایف سے مانگے گئے پیکج کے سائز پر بھی فرق پڑنا تھا اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے ڈیزائن میں مرکزی حیثیت رکھنے والی برآمدات سے ملک میں زرِمبادلہ کی آمد کے اندازوں اور نتیجتاً ذخائر کے سہہ ماہی اہداف پر بھی۔

اس کی ایک ممکنہ توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ چینی 'بیل آؤٹ' کا سائز اور اس کی نوعیت حکومت کو معلوم ہے اور پہلے ہی فنڈ کو بتا دی گئی ہے مگر عوام کے سامنے نہیں لائی جا رہی۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بہت ہی عجیب صورتحال ہے کیونکہ چین سے واپسی کے بعد سے حکومت اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب محسوس ہو رہی ہے۔

وزارت سنبھالنے کے بعد وزیرِ خزانہ نے کہا تھا کہ انہیں ادائیگیوں میں توازن کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ یہ سال گزارا جا سکے۔ مسئلہ اگلے سال سے شروع ہوگا جب یہی اندازے دکھاتے ہیں کہ بیرونی مالی امداد کی ضرورت بڑھ کر 33.8 ارب ڈالر ہوجائے گی جبکہ اسی دوران برآمدات میں سُستی اور بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی واقع ہونے کا بھی امکان ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کو سہارا دینے کے لیے چین اور سعودی عرب کا مشترکہ سہارا یعنی چین کو برآمدات اور سعودی عرب سے تیل کی سہولت اہم ہوگا مگر یہ اہم اصلاحات کا متبادل نہیں ہوسکتا۔

ایک اور اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ کہ درمیانی مدت میں بیرونی مالیاتی ضروریات کے اندازوں پر مذاکرات کے تازہ ترین راؤنڈ کے بعد نظرِ ثانی کر کے انہیں بڑھانا پڑے۔ ہم جولائی 2017ء کی آرٹیکل فور رپورٹ اور مارچ 2018ء کی بعد از پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ میں یہ ہوتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔

جولائی 2017ء میں شائع ہونے والی آرٹیکل فور رپورٹ میں مالی سال 2019ء کے لیے بیرونی مالیاتی ضروریات کا اندازہ 21 ارب ڈالر یا پھر ہماری برآمدات کا 297.1 فیصد تک لگایا گیا تھا جسے مارچ 2018ء میں بڑھا کر 27 ارب ڈالر یا پھر ہماری برآمدات کے 310.6 فیصد پر رکھا گیا ہے۔

اگر ہم دیکھیں کہ ان دونوں رپورٹس کے درمیان صرف 8 ماہ کا فاصلہ ہے، تو یہ بہت ہی بڑا اضافہ ہے، اب یا تو ایسا ہوا کہ اس دوران حکومت کے سامنے نئی معلومات آئیں یا بڑے حجم کا مختصر مدتی قرضہ لیا گیا، یا پھر ان دونوں میں سے کسی ایک معاملے میں شدید غلطی کی گئی۔ اس اہم شماریے، یعنی کہ مجموعی بیرونی مالیاتی ضرورت کا تازہ ترین اندازہ وہ پہلی چیز ہے جسے پروگرام کی دستاویزات میں آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوتے ہی ڈھونڈنا چاہیے۔ ایسا ہونے کا امکان جنوری میں ہے۔

اگر اس اہم شماریے کے ہمارے درمیانی مدت کے اندازے ایک بار پھر بڑھ جائیں تو ہم جان جائیں گے کہ اس موقع پر شروع ہونے والی دردناک ایڈجسٹمنٹ پہلے تصور کردہ دورانیے سے کہیں زیادہ طویل ہوگی۔ لیکن اگر نظرِثانی شدہ اندازے مارچ میں لگائے گئے اندازے سے کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوتے تو ہم اس تصور پر یقین کرسکتے ہیں کہ اب تک اٹھائے گئے اقدامات مثلاً شرحِ تبادلہ میں کمی اور شرحِ سود میں اضافہ حکومت کو اس نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے میں مدد دیں گے جسے اس نے حال ہی میں تسلیم کیا ہے۔

اس کے بعد اگلی چیز مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کا حجم دیکھنا ہوگا، خاص طور پر یہ کہ مالیاتی خسارے کی حد پروگرام کے تحت کتنی مقرر کی گئی ہے۔

اس پورے منصوبے کو جو بات عجیب بناتی ہے وہ اب تک کسی بھی ٹھوس چیز کی عدم موجودگی ہے۔ عام طور پر جب دونوں فریق مذاکرات کے درمیان ہوں تو اس موقع تک کچھ نہ کچھ اشارے ملنے شروع ہوجاتے ہیں کہ اصلاحات کے خدوخال اور سمت کیا ہوگی۔ مثال کے طور پر مارچ کی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے نشاندہی کی تھی کہ ریاستی ملکیت میں موجود اداروں کے متعلق 'فیصلہ کن ایکشن' لینا ہوگا تاکہ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ مگر مذاکرات کے موقع پر ہم نے اپنے وزیرِ خزانہ کو باآوازِ بلند اور بااعتماد انداز میں اعلان کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ نجکاری ان کی حکومت کے منصوبے میں شامل نہیں اور یہ کہ وہ سرکاری اداروں کو اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے منافع بخش بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اپنی دلیل کے حق میں وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں کی فہرست فارچون 500 میں ایک بڑی تعداد سرکاری کمپنیوں کی ہے جو کہ ایک منصفانہ دلیل ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اس فلسفیانہ تصور سے اتفاق نہیں کرتے کہ حکومت کو کمرشل ادارے نہیں چلانے چاہیئں۔ یہ بھی ایک منصفانہ دلیل ہے۔ مگر ایک اتنا ہی منصفانہ سوال یہ ہے کہ آپ کیسے مالیاتی ڈھانچے پر مزید بوجھ بڑھائے بغیر نقصانات کم کرکے سرکاری اداروں کی صحت میں بہتری لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں؟

ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک خودمختار ویلتھ فنڈ کے قیام سے متعلق ایک منصوبہ موجود ہے جس کا آئی ایم ایف کے ساتھ تبادلہ بھی کیا گیا ہے۔ مگر میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس نے یہ منصوبہ دیکھا ہو اور یہ منصوبہ کتنا قابلِ عمل ہے، اس کا بھی اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔ اسی طرح محصولات کا دائرہ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ کیا یہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اور اگر ہاں تو کیسے؟ ایف بی آر میں مضبوط نفاذ اور ٹیکس پالیسی کی تیاری اور اکھٹا کرنے کے معاملات کو الگ کرنے کے علاوہ ٹیکس اصلاحٓت کے حوالے سے کسی اسٹریٹجک سمت کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔

یہی بات پیداواری صلاحیت بڑھانے اور برآمدات کا دائرہ وسیع کرنے پر بھی صادق آتی ہے۔ کیا ہم اس حکومت کی مدت کے خاتمے تک ٹیکسٹائل ایکسپورٹر رہیں گے یا پھر نئی اور جدید صنعتیں بھی تب تک کام شروع کردیں گی؟

میں نے سالوں میں اتنا عجیب و غریب پروگرام نہیں دیکھا ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مذاکرات کے موقع پر بھی یہ نہ بتایا جا رہا ہو کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور حکومت ہمیں کہاں لے کر جانا چاہتی ہے۔

چلیں امید کرتے ہیں کہ یہ ہفتہ اس حوالے سے خوش آئند ثابت ہو۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024