مکہ اور مدینہ میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کی غائبانہ نماز جنازہ
سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غائبانہ نماز جناہ مکہ مکرمہ کی جامع مسجد اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ میں ادا کی گئی۔
مدینہ منورہ میں علی الصبح ہونے والی غائبانہ نماز جنازہ میں مقتول صحافی کے بیٹے صلاح خاشقجی نے بھی شرکت کی۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 5 ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ
اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر نماز جنازہ کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں نماز جمعہ کے بعد مکہ مکرمہ میں نماز ادا کی گئی۔
علاوہ ازیں ترکی کے شہر استنبول میں فاتح مسجد میں جمال خاشقجی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ لندن میں فنسبری پارک مسجد میں بھی نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ کی ادائیگی کا امکان تھا۔
برطانیہ کی مسلم ایسوسی ایشن کے سی ای او انس التکریتی کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ لندن میں جمال خاشقجی کی نماز جنازہ میں سیکڑوں مسلمان شریک ہوں گے۔
دوسری جانب جمال خاشقجی کی منگیتر ہیتائس سینگز کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں مسلمان نماز جنازہ ادا کر ہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اس ظلم کا جواب دینے کے لیے یہی بہتر عمل ہے۔
جمال خاشقجی کے ایک دوست فتح اوکی کا کہنا تھا کہ مقتول صحافی کے اہل خانہ کو اس وقت تک سکون نہیں ملے گا جب تک ’انصاف‘ نہیں مل جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ’آج ہم چاہتے ہیں کہ ان کی روح کو سکون پہنچے، اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوں گے لیکن اس غائبانہ نماز جنازہ سے ہماری ضرورت پوری نہیں ہوگی کیونکہ ہم جمال خاشقجی کی روح، ان کے اہل خانہ اور صحافت کے لیے اصل انصاف کے منتظر ہیں‘۔
جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟
سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔
تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف
تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔
دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔