ایس پی طاہر داوڑ کے حوالے سے سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر داوڑ کی موت کے حوالے سے ابھی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایس پی طاہر داوڑ کا معاملہ اٹھایا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ نے دہشتگردی کے بڑے معاملات دیکھے جبکہ اطلاعات ہیں کہ ان کی میت جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے نے وصول کی، ہم نے خارجہ امور کی کمیٹی میں یہ سوال اٹھایا، تاہم دفتر خارجہ کے حکام نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے معلوم نہیں کہ میت کہاں ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ساری دنیا ہم سے پوچھ رہی ہے لیکن دفتر خارجہ کہتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، ایس پی قتل کا معاملہ انتہائی اہم ہے، لہٰذا ایوان کو آگاہ کیا جائے۔
سینیٹر شیری رحمٰن کے اٹھائے گئے معاملے پر ایوان میں موجود وفاقی وزیر اطلاعات نے جواب دیا کہ یہ واقعہ بڑا سنجیدہ نوعیت کا ہے، ایک افسر کے بارے میں یہ اطلاعات آ رہی ہیں لیکن سرکاری طور پر ایس پی کے اس واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی، سوشل میڈیا کے اوپر تصاویر چلی ہیں، متعلقہ حکام سے اطلاعات ملتے ہی ایوان کو آگاہ کردیا جائے گا۔
فواد چوہدری نے شیری رحمٰن سے پوچھا کہ اگر ان کے پاس زیادہ معلومات ہیں تو میں انہیں تحقیقات میں شامل ہونے کی دعوت دوں گا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے وفاقی وزیر اطلاعات کو ایس پی طاہر داوڑ کے معاملے پر کل ایوان کو آگاہ کرنے کی ہدایت کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اس طرح کی اطلاعات آئی تھیں کہ طاہر خان داوڑ، جو پشاور پولیس کے دیہی سرکل کے سربراہ تھے اور جنہیں 26 اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے جی-10 سے اغوا کیا گیا تھا، ان کی مبینہ لاش افغانستان کے صوبے ننگر ہار سے ملی۔
تاہم پولیس کی جانب سے تصدیق سے قبل ایس پی کی مبینہ تشدد زدہ لاش کے ساتھ پشتو میں لکھے گئے خط کی تصاویر بھی وائرل ہوگئی تھیں جنکہ سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمیں اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ’ذرائع‘ سے موصول ہوئی۔
سینیٹ اجلاس میں گرما گرمی، اپوزیشن کا واک آؤٹ
اجلاس کے دوران فواد چوہدری نے دیگر معاملات پر بھی خطاب کیا، جس پر اپوزیشن نے شور شرابا کیا اور ایوان میں گرما گرمی ہوئی۔
اپوزیشن ارکان نے کہا کہ فواد چوہدری ایوان کا ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کر چلے گئے، اس پر چیئرمین سینیٹ نے قائد ایوان کو اپوزیشن اراکین کو منانے کی ہدایت کی۔
اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باوجود فواد چوہدری نے مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان کے بیان پر جواب دیا اور کہا کہ میں اس دن ایوان میں موجود نہیں تھا اور میرے متعلق بات کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ مشاہد اللہ خان نے بڑے نامناسب الفاظ استعمال کیے، لہٰذا وہ یا ان کی جماعت اس بیان پر معذرت کرے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب ہم سابق حکومت کی کرپشن اور ان پر مقدمات کی بات کرتے ہیں تو ایوان کا ماحول خراب کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کرپشن کی تحقیقات کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن ماحول خراب ہونے کا کیوں کہتی ہے؟ جب ہم اکاونٹس کا ذکر کرتے ہیں تو ماحول خراب ہونے کا کہا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس معاملے کو چھوڑ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں یہ بات سامنے آئی بابا فرید کی زمین بھی بیچ کر کھا گئے، یہ نہ کہیں کہ تمام چیزوں کو کارپیٹ کے نیچے ڈال کر آگے بڑھیں۔
اس سے قبل سینیٹر پرویز رشید نے اجلاس میں کہا تھا کہ وزرا ایوان میں موجود نہیں ہوتے، وزرا کی فوج رکھی ہوئی ہے لیکن ایوان میں کوئی نہیں، وزرا پتہ نہیں کھانے کے بعد قیلولہ فرما رہے ہیں، تاہم چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر پرویز رشید کے ان الفاظ کو حذف کردیا۔
ادھر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے ایوان بالا میں ایس پی طاہر داوڑ کا معاملہ اٹھایا گیا۔
مشتاق احمد نے کہا کہ ایس پی کے قتل کے معاملے پر حکومت نے کوئی جواب تک نہیں دیا، بتایا جائے کہ کیا واقعے کے وقت ایس پی افغانستان میں موجود تھے۔
اس موقع پر مشتاق احمد کی جانب سے ایس پی طاہر داوڑ کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی گئی، جس پر چیئرمین سینیٹ نے مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح روزانہ فاتحہ خوانہ مشکل ہوجائے گی۔
ڈیم فنڈز کی تفصیلات ایوان میں پیش
سینیٹ اجلاس کے دوران سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ڈیم فنڈ میں موصول ہونے والی ملکی اور غیر ملکی عطیات کی تفصیلات پیش کی گئیں۔
ایوان کو بتایا گیا کہ ڈیم فنڈ میں 7 نومبر 2018 تک 7 ارب 48 کروڑ 20 لاکھ روپے موصول ہو چکے ہیں۔
تفصیلات میں بتایا گیا کہ ڈیم فنڈ کے لیے 6 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ ملکی جبکہ 80 کروڑ 40 لاکھ روپے کے غیر ملکی عطیات موصول ہوئے ہیں۔
سینیٹ میں بتایا گیا کہ ڈیم فنڈ کے لیے حکومتی اداروں سے 2 ارب 70 کروڑ سے زائد روپے کے عطیات موصول ہوئیں جبکہ دیگر اداروں کی جانب سے 3 ارب 96 کروڑ سے زائد کی عطیات دی گئیں۔