بنگلہ دیش سے روہنگیا مسلمانوں کی ’جبراً واپسی‘ روکنے کا مطالبہ
جینیوا: اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی جانب سے پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی جبراً بے دخلی کا عمل انسانی حقوق کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے میانمار واپسی کا عمل روکنے کا مطالبہ کردیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مائیکل بچیلیٹ نے کہا کہ ’بنگہ دیش میں پناہ گزینوں کو جبراً بے دخل اور واپسی کے لیے مجبور کرنا انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی، فوجی افسران کے ٹرائل کی تجویز
ان کا کہنا تھا کہ ’میانمار، جہاں پناہ گزینوں کو زندگی کا خطرہ لاحق ہے، ایسے حالات میں ان کی واپسی ممکن نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں واپسی کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں ان کی شہریت کی ضمانت اور سیکیورٹی کے خدشات تاحال قائم ہیں۔
بنگہ دیش کے سرحدی علاقے میں متحرک امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے بعد میانمار واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔
تاہم، دونوں حکومتوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ نومبر کے وسط سے بڑے پیمانے پر روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کریں گی، جبکہ سماجی کارکنان کا کہنا تھا کہ درحقیقت رخائن پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مزید پڑھیں: فیس بک کا میانمار میں ’آف لائن تشدد‘ کے فروغ کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف
42 امدادی ایجنسیوں اور سول سوسائٹی گروہوں نے ایک بیان میں اس اقدام کو ’خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’روہنگیا خوفزدہ ہیں کہ اب وہ میانمار واپس جائیں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا اور موصول ہونے والی اطلاعات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں‘۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے محفوظ مقام کی تلاش میں بنگلہ دیش کا رخ کیا تھا اور پناہ دینے پر بنگلہ دیشی حکومت کے شکر گزار ہیں‘۔
اوکسفام، ورلڈ ویژن اور سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارے میانمار اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والے گروہوں میں شامل تھے اور انہوں نے ہی اس بیان پر دستخط کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی آنگ سان سوچی سے ایوارڈ واپس لے لیا
خیال رہے کہ گزشتہ برس میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 7 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔