مہاجرین کی واپسی میں تاخیر کی ذمہ داری بنگلہ دیش پر ہوگی، میانمار
میانمار کی حکومت نے روہنگیامسلمانوں کی مہاجروں کے کیمپوں سے واپسی کی متنازع تاریخ دینے کے چوتھے روز بعد کہا ہے کہ مہاجرین کی واپسی میں کوئی رکاوٹ ہوئی تو بنگلہ دیش اس کا قصوروار ہوگا۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ اور بین الاقوامی این جی اوز کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے صورت حال تاحال بہتر قرار نہیں دیے جانے کے باوجود ہمسایہ ملک نے اعلان کردیا ہےکہ 2 ہزار 200 روہنگیا مسلمانوں کو ابتدائی طور پر 15 نومبر کو واپس لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست میں فوجی کاررروائی کے بعد میانمار کی ریاست رخائن سے 7 لاکھ 20 ہزار روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش کی سرحد کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
روہنگیا مسلمانوں نے مہاجر کیمپوں میں رخائن میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی کارروائی کے دوران خواتین کی عصمت دری کی گئی جبکہ تشدد اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسی طرح واپسی کے لیے خوف کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھیں:’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘
مہاجرین کا مطالبہ تھا کہ انہیں میانمار کے شہری تصور کرتے ہوئے ریاست میں تحفظ، شہریت اور آزادی سے نقل وحرکت کی ضمانت دی جائے۔
میانمار اور بنگلہ دیش نے نومبر 2017 میں ایک معاہدے پر دستخط بھی کیا تھا لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے بدستور کہا گیا کہ ‘مہاجرین کی واپسی ہرحال میں محفوظ، رضاکارانہ اور باعزت ہونی چاہیے’۔
میانمار کے سوشل ویلفیئر کے وزیر ون میات آئے کا کہنا تھا کہ ‘ہم تیار ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ بحالی کیمپ میں ان کو کپڑوں، خوراک 42 مختلف مقامات میں انہیں اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے رقم بھی دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:میانمار میں روہنگیا نسل کشی اب بھی جاری ہے، اقوام متحدہ
میانمارکے وزیر یہ وضاحت نہ کرپائے کہ مہاجرین میں سب سے پہلے واپسی کس کی ہوگی تاہم بنگلہ دیش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان پر منحصر ہے کہ اگلے ہفتے ہونے والی واپسی کو کیسے یقینی بناتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بنگلہ دیش پر منحصر ہے کہ مہاجرین کی واپسی 15 نومبر سے شروع ہو جائے’۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کے وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ منصوبے کے مطابق 15 نومبر سے مہاجرین کی واپسی کے لیے پرعزم ہیں اور ہر مہاجر کی واپسی رضاکارانہ ہوگی جس کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی ہوگی۔
یواین ایچ سی آر کے ترجمان فراز الخطیب نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وقت مقرر کرنے کے باجود تاحال مسائل کا مکمل حل نہیں نکالا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بنگلہ دیش کی حکومت نے مہاجرین کی رضاکارانہ نگرانی کے لیے ہمیں باقاعدہ طور پر کہا ہے لیکن اس عمل کو اب تک مکمل نہیں کرپائے ہیں’۔
مزید پڑھیں:’مسلمانوں کی نسل کشی پرمیانمار فوج کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں‘
میانمار اور بنگلہ دیش دونوں حکومتیں پہلے مرحلے میں 2 ہزار 251 مہاجرین کی واپسی کی کوششوں پر زور دے رہی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر 150 افراد ہوں گے۔
آکسفیم، ورلڈ وژن اور سیو دی چلڈرن سمیت 42 بین الاقوامی این جی اوز کے گروپ نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کار مطالبہ کرچکے ہیں کہ میانمار کے اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) میں نسل کشی اور کارروائی کے مقدمات چلائے جائیں۔
میانمار نے عالمی عدالت کے ان کی ریاست کے اندر مداخلت کے حدود کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف فوج کی کارروائیاں قابل جواز تھیں۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا مزید کہنا تھا کہ میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی کی فوج کے ساتھ اتحادی حکومت بھی اپنے طریق عمل سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں شریک تھی۔