کیا نیوزی لینڈ نے منصوبہ بندی کے تحت حفیظ کو نشانہ بنایا؟
عام طور پر قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ڈانٹتے یا پھر ٹوکتے نظر آتے ہیں لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ون ڈے میچ میں صورتحال کچھ مختلف نظر آئی اور اس کے برعکس وہ امپائر اور حریف ٹیم کے سب سے تجربہ کار بلے باز روس ٹیلر سے الجھتے اور اس پر برہم نظر آئے۔
لیکن آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں سے اچھے انداز میں پیش آنے والے سرفراز اتنا بھڑک گئے کہ امپائرز کو مداخلت کرنا پڑی اور پوری ٹیم اپنے کپتان کی ہم آواز اور صورتحال سے پریشان نظر آئی۔
ہوا کچھ یوں کہ پہلے ون ڈے میچ کے دوران نیوزی لینڈ کی ٹیم جلد ہی 3 وکٹیں گنوا چکی تھی، اسپنرز باؤلنگ کے لیے آچکے تھے جن کے خلاف آسانی سے رنز کرنے میں انہیں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
ٹی20 سیریز کی طرح یہاں بھی محمد حفیظ عمدگی سے باؤلنگ کر رہے تھے اور نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو ان کے خلاف رنز کے حصول میں دقت پیش آ رہی تھی۔ بس یہی وہ وقت تھا جب رنز نہ بنانے کی پریشانی سے نکلنے کے لیے روس ٹیلر نے آف اسپنر کے ایکشن پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے امپائرز کی توجہ حاصل کرنا چاہی۔
نیوزی لینڈ کے سب سے تجربہ کار بلے باز کی اس حرکت نے سرفراز کو آگ بگولہ کردیا اور پہلے ان کا امپائرز سے مباحثہ اور پھر حریف بلے باز سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
پڑھیے: سرفراز احمد نے روس ٹیلر کی حرکت ’شرمناک‘ قرار دے دی
لیکن اس کے کچھ دیر بعد ہی میچ کا نقشہ تیزی سے بدلنا شروع ہوگیا کیونکہ ٹیلر کی اس حرکت کے سبب حفیظ کا اعتماد ماند پڑتا نظر آیا اور وہ کھلاڑی جنہیں حفیظ کے خلاف سنگل لینے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی، اب ان کے خلاف باآسانی رنز بنانے لگے اور پھر ایک ایک کرکے چیزیں میچ میں پاکستان کے خلاف جانے لگیں اور ٹیم ہاتھ میں آئی بازی گنوا بیٹھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کارروائی نیوزی لینڈ کے کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی؟ اگر حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات کافی حد تک درست نظر آتی ہے۔
محمد حفیظ نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی20 سیریز میں کلین سوئپ فتح میں مرکزی کردار ادا کیا اور مین آف دی سیریز قرار پائے۔
آل راؤنڈر نے ناصرف تینوں میچوں میں عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا بلکہ ان کی نپی تلی باؤلنگ سے نیوزی لینڈ کی ٹیم پر رنز نہ بننے کا دباؤ بھی بڑھا اور اسی دباؤ میں وہ بڑے شاٹس کھیلنے کی کوشش میں دیگر باؤلرز کو وکٹیں دے کر پویلین لوٹے۔
حقیقتاً تینوں میچوں میں حفیظ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے لیے ڈراؤنا خواب بنے رہے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مہمان ٹیم کے پاس انہیں قابو کرنے کا کوئی حربہ نہیں ہے۔
گوکہ ہماری ٹیم ون ڈے کرکٹ میں ناصرف ایشیا کپ کے دوران ناکامیوں سے دوچار ہوئی بلکہ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی اس فارمیٹ میں ریکارڈ انتہائی مایوس کن تھا جہاں اسے گزشتہ 11 ون ڈے میچوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ٹی20 میں مسلسل فتوحات کے تسلسل سے ٹیم کے اعتماد میں واضح بہتری نظر آئی تھی جبکہ عماد وسیم اور حفیظ کی ون ڈے ٹیم میں شمولیت سے ٹیم ایک بہتر شکل میں نظر آنے لگی، اور یوں لگ رہا تھا جیسے اس بار نتیجہ مختلف ہوگا.
ویسے تو الگ فارمیٹ کو دیکھتے ہوئے نیوزی لینڈ کو ون ڈے سیریز میں کچھ خاطر خواہ مشکلات پیش نہیں آنی چاہیے تھیں لیکن شاید ٹی20 سیریز میں آل راؤنڈر کی کارکردگی نے انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
یہاں مجھے اس آسٹریلین ٹیم کا ذکر کرنا پڑے گا جس نے اسٹیو وا اور رکی پونٹنگ کی قیادت میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں اور یہ ٹیم کرکٹ کی چند عظیم ٹیموں میں شمار ہوتی لیکن جب کبھی بھی اس طاقتور ٹیم کو کسی حریف کو قابو کرنے میں مشکلات پیش آتیں تو وہ مخالف ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جانے والے ٹیم کے سب سے بہترین کھلاڑی یا ان فارم کھلاڑی کو فقرے بازی یا دیگر چیزوں سے تنگ کرتے تاکہ اس ٹیم کی توجہ دوسری جانب مبذول کرائی جا سکے۔
عموماً یہ کام سیریز کے ابتدائی میچوں میں ہی انجام دیا جاتا تاکہ بقیہ سیریز میں مذکورہ کھلاڑی اور ٹیم دونوں ہی کا مورال گر جائے اور آسٹریلیا کی یہ حکمت عملی کافی حد تک کام بھی کر جاتی تھی۔
بعد میں دنیا کی کئی ٹیموں نے اس حکمت عملی کو کسی حد تک استعمال کیا اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم کی فارم کو خراب کرنے کے لیے نیوزی لینڈ نے بھی اسی حربے کو آزماتے ہوئے گرین شرٹس کے سب سے ان فارم کھلاڑی کو نشانہ بنایا جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔
جب تک ٹیلر نے یہ حرکت نہیں کی تھی تب تک حفیظ نے 4 اوورز میں محض 10 رنز دیے تھے، لیکن جیسے ہی یہ واقعہ ہوا تو حفیظ پریشان ہوئے اور اگلے 2 اوورز میں بالترتیب 5 اور 8 رنز بنے اور ان کے اعتماد میں واضح کمی نظر آئی جس کو دیکھتے ہوئے کپتان حفیظ کو ہٹانے پر مجبور ہوگئے۔
یہ حکمت عملی اس حد تک کارگر رہی کہ ٹام لیتھم اور روس ٹیلر کی جوڑی دیکھتے ہی دیکھتے 130 رنز کی پارٹنرشپ بنا گئی اور اس دوران عماد وسیم، حسن علی اور جنید خان بالکل بے ضرر نظر آئے۔
تاہم شاداب نے محض 4 گیندوں میں مڈل آرڈر کے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے پاکستان کو میچ میں واپس لانے کا سامان کیا لیکن دیگر باولرز اس صورتحال سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے کیونکہ 210 رنز پر 7 وکٹوں سے محروم ہونے والی نیوزی لینڈ کے ٹیل اینڈرز نے 39 گیندوں پر مزید 56 رنز جوڑے اور میچ کو پاکستان کی گرفت سے دور لے گئے۔
پھر ہدف کے تعاقب کی باری آئی تو اول بات یہ کہ ہدف کے تعاقب میں ہمارا ریکارڈ ویسے ہی ’کافی شاندار رہا‘ ہے اور دوسرا یہ کہ 267رنز کا ہدف ہماری توقعات سے زیادہ تھا، اوپر سے رہی سہی کسر ٹرینٹ بولٹ کی ہیٹ ٹرک نے پوری کردی جس کے بعد نوشتہ دیوار پڑھا جا سکتا تھا۔
پڑھیے: پاکستان کے خلاف ہیٹ ٹرک کی داستانیں
باؤلنگ میں پیش آنے والے واقعے کا اثر یہاں بھی نظر آیا اور ٹی20 سیریز میں مستقل رنز کرنے والے حفیظ پہلی ہی گیند پر پویلین لوٹ کر بولٹ کی ہیٹ ٹرک کی تمنا پوری کرگئے۔
اس کے بعد کی کارروائی رسمی ہی ثابت ہوئی، گوکہ سرفراز نے عماد کے ہمراہ قیادت کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے نصف سنچری بنائی لیکن دونوں کھلاڑی ابتدائی نقصان کا ازالہ نہ کرسکے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سرفراز اور مکی آرتھر نیوزی لینڈ کی منصوبہ بندی کی نذر ہوگئے اور کپتان و کوچ کے پاس حریف کی اس حکمت عملی کا کوئی توڑ نہ تھا۔
اگرچہ سیریز ابھی بھی باقی ہے اور دونوں ٹیموں کے پاس سیریز جیتنے کا پورا موقع ہے، لیکن ایسا کرنے کے لیے قومی ٹیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے میچ میں ہونے والے واقعے کو مکمل طور پر بھول کر میدان میں اترے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بتادے کہ ان کی اس طرح کی کوئی بھی سازش مزید کامیاب نہیں ہوسکے گی.
تبصرے (2) بند ہیں