منی لانڈرنگ کیس: ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت ایف آئی اے میں طلب
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی ونگ نے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں مزید اہم شواہد حاصل کرنے کے بعد خالد مقبول صدیقی سمیت ایک درجن سے زائد اہم رہنماؤں کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت سمیت مجموعی طور پر ایک درجن سے زائد رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
مزید پرھیں: الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ
ایف آئی اے کی جانب سے جن رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، نسرین جلیل، اقبال قادری، سمن سلطانہ جعفری، کشور زہرہ اور ڈاکٹر فروغ نسیم کے ساتھ ساتھ مولانا تنویر الحق تھانوی بھی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رہنماؤں آصف حسنین، نائلہ منیر اور سلمان بلوچ کو بھی نوٹس بھیجے گئے ہیں۔
ان تمام افراد کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ آپ نے 2013 سے 2015 کے دوران خدمت خلق فاؤنڈیشن میں رقم عطیہ کی جسے غیرقانونی کاموں کے لیے استعمال کیا گیا اور بادی النظر میں اتنی بڑی رقم عطیہ کیے جانے سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ اسے کسی غیرقانونی سرگرمی کے لیے دیا گیا جسے مرکزی ملزم نے انجام دیا۔
ایف آئی اے نے انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے کچھ رہنماؤں کو 15 اور بقیہ کو 20نومبر کو طلب کر لیا ہے تاکہ وہ معاملے پر وضاحت پیش کر سکیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ پیش نہیں ہوئے تو یہ تصور کیا جائے گا کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ بھی دیکھیں: الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کب اور کیسے شروع ہوا؟
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو ایم کیو ایم کے خلاف ایک ارب 40کروڑ روپے منی لانڈرنگ کے ثبوت مل گئے ہیں اور اسی سلسلے میں ان تمام رہنماؤں کو بھی طلب کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق خدمت خلق فاونڈیشن کے اکاونٹ میں جعلی انٹریوں کا بھی انکشاف ہوا اور ایک ارب روپے صرف پرچیوں پر جعلی نام لکھ کر جمع کرائے گئے۔
یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنماؤں کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ گزشتہ سال سرفراز مرچنٹ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جسے ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔