میڈیا میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر اراکین اسمبلی کا اظہار تشویش
بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور حزب اختلاف اراکین نے ملک بھر میں صحافیوں اور میڈیا کے اداروں سے منسلک دیگر افراد کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسمبلی کے اگلے سیشن میں اس حوالے سے مشترکہ قرار داد پیش کریں گے۔
ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان مندوخیل کی صدارت میں اسمبلی اجلاس کا آغاز ہوا تو صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر میر اسد بلوچ نے صحافیوں کے واک آؤٹ کی طرف ایوان کی توجہ دلائی اور کہا ہے کہ میڈیا ہاؤسز نے بڑی تعداد میں صحافیوں اور دیگر کارکنوں کو برطرف کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے کیونکہ کئی صحافی ان کے اداروں کی جانب سے ملازمین کی برطرفی کے باعث بے روزگار ہوگئے ہیں’، صوبے کے 16 افراد اپنے ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
مزید پڑھیں:تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور نوکریوں سے نکالنے پر صحافیوں کا احتجاج
جمعیت علما اسلام (ف) کے سید فضل آغا کا کہنا تھا کہ ایوان کو اس معاملے میں جلد ہی مشترکہ قرار داد لانی چاہیے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے نصراللہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت نے مقامی اخبارات کو اشہتارات روک دیے ہیں جس سے مدیران اور روزناموں کے پبلشرز میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی گزشتہ کئی دنوں سے حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں کیونکہ اس نے اخباری صنعت کے لیے تشویش ناک مسائل کھڑے کیے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات و ہائر ایجوکیشن میر ظہور احمد بلیدی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے صوبے میں 70 فیصد اشتہارات حاصل کرنے والے پبلی کیشنز کی سرکولیشن صفر ہے اور انہیں اشتہارات جاری کرنا ٹیکس دہندگان کے پیسے کا ضیاع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر اخبارات اور چینلز کو نوٹس
ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ ‘ہم نے ڈمی اخبارات کی فہرست بنائی ہے اور قومی احتساب بیورو (نیب) میں ان کے خلاف مقدمات بنا رہے ہیں، اخبارات کی سرکولیشن کو دیکھنے کے لیے ہم انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے جارہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان مقامی اخبارات کو ترقی دینا چاہتی ہے جو طویل عرصے سے شائع ہورہے ہیں لیکن اپنی سرکولیشن بڑھا نہیں سکتے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ثنااللہ بلوچ نے تجویز دی کہ حکومت کو انفارمیشن ڈپارٹمنٹ ختم کردینا چاہیے اور اس کے 90 کروڑ کے بجٹ کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں منتقل کردے۔
ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کوملک میں اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ اشتہارات جاری کرکے میڈیا کو کنٹرول کیا جائے یا اس کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا جائے۔
گوادر یونیورسٹی ڈرافٹ بل منظور
ایوان نے گوادر یونیورسٹی بل کو بغیر کسی مخالفت کے منظور کرلیا۔
مزید پڑھیں:آزادی صحافت اور صحافیوں کے معاشی تحفظ کیلئے ملک گیر احتجاج کی کال
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ قانونی ڈرافٹ بہت اہم تھا کیونکہ گوادر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے بعد ساحلی شہر کے لیے ایک یونیورسٹی اہم بن چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ سیشن کے دوران معزز اراکین نے بل کے ڈرافٹ کی مخالفت نہیں کی تھی، وفاقی حکومت گوادر یونیورسٹی کے لیے ایک ارب روپے مختص کرچکی ہے اس لیے ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہیے’۔
حزب اختلاف کے اراکین کا کہنا تھا کہ معاون خصوصی کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ تنخواہ اور دیگر مراعات کے ڈرافٹ بل کو ایوان میں بحث کے لیے دوبارہ پیش کرنا چاہیے۔
موسیٰ خیل کا کہنا تھا کہ اسمبلی نے بل کو گزشتہ سیشن میں منظور کیا تھا جب اپوزیشن اراکین احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کر چکے تھے۔
یہ خبر 4 نومبر2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی