پاکستان میں انٹرنیٹ کے گرد شکنجہ تنگ ہوتا جا رہا ہے؟
3 جون 2018ء کو عام انتخابات سے صرف ایک ماہ پہلے کئی ٹوئٹر صارفین نے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم پر عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے زیرِ انتظام ایک ویب سائٹ کھولنے میں ناکامی کا اظہار کیا۔
پہلے ملک کی مختلف انٹرنیٹ کمپنیوں کے صارفین کے لیے قابلِ رسائی یہ ویب سائٹ اب ایک ایسے پیج تک لے جا رہی تھی جس پر لکھا تھا کہ یہ ویب سائٹ ’ناقابلِ رسائی‘ ہے کیونکہ ’اس میں ایسا مواد ہے جسے پاکستان کے اندر دیکھنے پر پابندی عائد ہے‘۔ مگر بیرونِ ملک موجود صارفین کو اس ویب سائٹ تک رسائی حاصل رہی۔
’سرف سیفلی‘ نامی اس پیغام نے اشارہ دیا کہ ویب سائٹ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بلاک کی تھی جسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) کی شق 37 کے تحت ایسے کسی بھی مواد کو ہٹانے، بلاک کرنے یا اس تک رسائی محدود کرنے کا اختیار حاصل ہے جسے یہ غیر قانونی سمجھتی ہو۔
مگر اے ڈبلیو پی کے کارکنان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی باضابطہ درخواست میں پارٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ باوجود اس کے کہ تکنیکی ثبوت ویب سائٹ بلاک کرنے میں پی ٹی اے کی جانب اشارہ کر رہے تھے مگر ’کسی بھی موقع پر اے ڈبلیو پی کو کسی بھی سرکاری ادارے، بشمول پی ٹی اے کی جانب سے ہمیں بلاک کرنے کی وجوہات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں معاملے کو حل کرنے کا موقع نہیں ملا۔‘
اے ڈبلیو پی نے کہا کہ قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی ویب سائٹ بلاک کرنا آئین کے تحت وابستگی اور اظہار کے بنیادی حقوق کی پامالی تھا۔ اسی طرح پی ٹی اے کو ایسی ہی درخواست بھیجی گئی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد پارٹی کارکنان نے انتخابی مہم چلانے کے لیے عارضی طور پر ایک نئی ویب سائٹ قائم کرلی۔
اے ڈبلیو پی کی اپیل پر ویب سائٹ 3 روزہ سینسرشپ کے بعد بحال ہوگئی مگر پھر بھی اس کے بلاک ہونے کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
یہ پاکستان میں غیر شفاف انداز میں سیاسی مواد بلاک کیے جانے کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں حالیہ کچھ سالوں میں انٹرنیٹ پر پابندیوں میں سختی آئی ہے۔
بین الاقوامی ادارے فریڈم ہاؤس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 2017ء میں مسلسل چھٹی مرتبہ ’غیر آزاد‘ قرار پایا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں سال 2017ء میں انٹرنیٹ کی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوئی تھی۔ پاکستان کی مجموعی رینکنگ 100 میں سے 71 تھی (جس میں 100ویں رینکنگ خراب ترین تھی)، جبکہ 2016ء میں یہ 2 درجے بہتر تھی۔ فریڈم ہاؤس نے مواد تک رسائی میں رکاوٹوں اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور سماجی مواد کو ریاست بغیر کسی شفافیت کے تیز تر انداز میں بلاک کرتی جا رہی تھی اور انٹرنیٹ آزادیوں کو 'قومی سلامتی' کی وجہ بنا کر سلب کیا جا رہا تھا۔
جنوری 2017ء میں طنزیہ ویب سائٹ خبرستان ٹائمز پر ملک بھر میں مکمل پابندی عائد کردی گئی اور یہ اب تک ناقابلِ رسائی ہے۔ اے ڈبلیو پی کی طرح اس ویب سائٹ کے ایڈیٹرز کو بھی پی ٹی اے نے اپنے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
30 جنوری 2017ء کو ویب سائٹ کے فیس بک پیج پر کی گئی آخری پوسٹ میں لکھا گیا ہے: ’محترم قارئین، خبرستان ٹائمز کی ویب سائٹ کو بدھ 25 جنوری 2017ء سے پاکستان میں بلاک کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کا کوئی نوٹیفیکیشن نہیں ملا ہے مگر اسے پاکستان میں کہیں سے بھی نہیں کھولا جاسکتا۔ اگر ہمارے پاس کوئی تازہ معلومات آئیں تو ہم آپ کو ان سے آگاہ رکھیں گے۔‘
خبرستان ٹائمز کے شریک بانی اور ایڈیٹر کنور خلدون شاہد کہتے ہیں کہ ’پابندی کو ایک سال سے زائد ہوگیا ہے مگر ہمیں اب بھی معلوم نہیں ہے کہ قانون کی کس شق کے تحت ویب سائٹ کو بلاک کیا گیا ہے۔‘
جہاں ویب سائٹ کے ایڈیٹرز سمیت زیادہ تر قارئین اس حوالے سے اتفاق کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی انتہاپسندوں پر تنقید پر مبنی طنزیہ مواد شائع کرنے سے یہ پابندی متوقع تھی، وہیں اس کا بغیر کسی سرکاری نوٹیفیکیشن کے بلاک ہوجانا اس بات کا عکاس ہے کہ ملک میں آزادی اظہار کن مشکلات کا شکار ہے۔
شاہد کہتے ہیں کہ ’یہ پریشان کن ہے کہ ایک طنزیہ ویب سائٹ کو اشتعال انگیز ہونے پر بلاک کردیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن یہ کام کرنے کا بے ضابطہ طریقہ ہے۔‘
پیکا کی مبہم الفاظ والی شقیں اس پریشانی میں صرف اضافہ ہی کرتی ہیں۔
شاہد کہتے ہیں کہ ’غلط رپورٹنگ، دھوکہ دہی اور طنز میں فرق ہے۔ قانون 'بددیانت ارادے' پر زور دیتا ہے جس کا اطلاق طنزیہ مواد پر نہیں ہوتا، وہ بھی تب جب اس کے نیچے واضح طور پر تحریر ہو کہ یہ طنزیہ مواد ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ طنزیہ ویب سائٹ دی انیئن ایسے کسی بھی نوٹس کے بغیر حقیقی تصاویر استعمال کرتی ہے مگر پاکستان میں طنزیہ ہونے کے لیبل کے باوجود مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے (وہ نئی طنزیہ اشاعت دی ڈپینڈینٹ) کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شق 37 جو غیر قانونی آن لائن مواد کے بارے میں ہے، وہ متاثرہ فریقین کو اتھارٹی کے پاس حکم نامے کے اجرا کے 30 دن کے اندر درخواست جمع کروانے کی اجازت دیتی ہے۔ پی ٹی اے کے فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی کے فیصلے کے 30 دن کے اندر کی جا سکتی ہے۔
مگر یہ جاننے کے باوجود کہ خبرستان ٹائمز کا کیس قانونی بنیادوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے، شاہد اور ان کی ٹیم نے اس معاملے کی گہرائی میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔
شاہد کہتے ہیں کہ ’ہم نے سوچا تھا کہ [جابرانہ] حالات کے بہتر ہوجانے کا انتظار کیا جانا چاہیے مگر اب تک تو یہ مزید خراب ہی ہوئے ہیں۔‘
قابلِ اعتراض مواد کا پریشان کن مسئلہ
ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین تیز ہوتے ہوئے انٹرنیٹ کریک ڈاؤن کی وجہ پیکا کے سخت گیر قانون کو بتاتے ہیں جو 2016ء میں پاس ہونے والا ملک کا پہلا جامع سائبر کرائم ایکٹ ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے کسی ویب سائٹ کو بلاک کروانے کے لیے درخواست گزاروں کو ایک بین الوزارتی کمیٹی کے پاس جانا پڑتا تھا جو پی ٹی اے کو حکم دیتی کہ وہ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) سے کہہ کر متعلقہ ویب سائٹ بلاک کروائیں۔ مگر پیکا کے نفاذ کے بعد پی ٹی اے کے پاس اب براہِ راست ایسی کوئی بھی ویب سائٹ بلاک کرنے کا مکمل اختیار ہے جو اسے 'قابلِ اعتراض' محسوس ہو۔ اس قانون کے تحت لفظ 'قابلِ اعتراض' کافی وسیع تشریح کا حامل ہے۔
سائبر کرائم قانون کی شق 37 آن لائن مواد کو بلاک کرنے، ہٹانے یا/اور سینسر کرنے کی ہدایات جاری کرنے کا اختیار اس وقت دیتی ہے جب اسے اسلام کی عظمت، پاکستان کے دفاع، سلامتی اور سالمیت، امن و امان، اخلاقیات و شرافت یا پھر توہینِ عدالت سے متعلق کسی معاملے میں ایسا کرنا ضروری محسوس ہو۔
پی ٹی اے پر آزادی اظہار کے خلاف کارروائیوں کی بار بار تنقید کے باوجود اتھارٹی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی اے بنیادی طور پر صرف بیرونی ذرائع کی شکایات پر ہی عمل کرتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک افسر بتاتے ہیں کہ ’شکایات کے 3 ذرائع ہیں۔ ایک تو 30 شراکت داروں کی ایک فہرست ہے جنہیں مانیٹرنگ پورٹل تک رسائی حاصل ہے۔ دوسرا ذریعہ عوام ہیں۔ تیسرا ذریعہ اتھارٹی کا اپنا سرچنگ کا نظام ہے جو صرف مخصوص مواد پر ہی نظر رکھتا ہے۔‘
جب پوچھا گیا کہ یہ شراکت دار کون ہیں تو ان افسر نے بتایا کہ ایجنسیاں بشمول انٹیلی جینس، انسدادِ دہشتگردی کے محکمے، فرنٹیئر کور، وزارتیں اور تمام صوبوں کے محکمہ ہائے داخلہ پی ٹی اے کے پاس مواد ہٹانے کے لیے درخواستیں لاتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت پاکستان میں کم از کم 8 لاکھ 31 ہزار 2 ویب سائٹس بلاک ہیں۔ ان بلاک ویب سائٹس اور یو آر ایلز میں سے 7 لاکھ 69 ہزار 947 فحش مواد جبکہ 34 ہزار 762 گستاخانہ مواد کی وجہ سے بند ہیں۔ تقریباً 11 ہزار 544 لنکس اور ویب پیجز ریاست مخالف، عدلیہ مخالف اور فرقہ وارانہ/نفرت انگیز مواد کی وجہ سے بلاک ہیں۔ اتھارٹی نے 800 سے زائد ویب پیجز (دوسرے لوگوں یا گروہوں) کو بدنام کرنے یا ان کے نام سے دھوکہ دینے کی وجہ سے بھی بلاک کیے ہیں، یہ وہ رجحان ہے جو اس سال الیکشن کی وجہ سے تیز ہوا تھا۔
ان افسر کا کہنا ہے کہ ’ریاست مخالف یا فوج مخالف شکایات زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آتی ہیں۔ جہاں تک بات توہینِ عدالت کے معاملات کی ہے تو اسے پی ٹی اے خود سرچ کرتا ہے۔ گستاخانہ، فحش اور عدلیہ مخالف مواد کو خود سرچ کرکے بند کردیا جاتا ہے۔‘
یہ افسر متاثرہ فریقوں کو یہ کہہ کر تسکین دیتے ہیں کہ ایک بار جب غیر قانونی مواد ہٹا دیا جائے تو اتھارٹی ویب سائٹ بحال کر دیتی ہے۔
اس سال کی ابتدا میں ریگولیٹری ادارے نے موبائل فون نیٹ ورکس کے ذریعے ایک ایس ایم ایس سروس شروع کی اور اخباری اشتہارات شایع کیے تاکہ سوشل میڈیا صارفین کو مواد کی موزونیت کے حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس اقدام کی ڈیجیٹل اور شہری حقوق کے کارکنوں نے سخت مخالفت کی اور اسے آن لائن آزادی اظہار پر پابندی کے مترادف قرار دیا گیا۔ اتھارٹی کی جانب سے بھیجے گئے پیغام میں تحریر تھا کہ ’انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کے گستاخانہ مواد کو شیئر کرنا قانون کے تحت ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے ایسے مواد کی اطلاع پی ٹی اے کو [email protected] پر قانونی اقدام کے لیے دیں۔‘
ریاستی اداروں کی جانب سے انٹرنیٹ کی کڑی جانچ پڑتال اور پیکا کی غیر قانونی مواد کی وسیع تعریف کی وجہ سے ڈیجیٹل دنیا میں خوف کی سی فضا قائم ہے۔ جب پوچھا گیا کہ جمہوری بحث کے لیے تعمیری تنقید کرنے کا 'قانونی طور پر محفوظ' طریقہ کیا ہے، تو پی ٹی اے کے افسر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’صرف مواد بلاک کردینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘
شفافیت میں پاکستان کا ریکارڈ
معلومات کے حصول اور مواد ہٹانے کے لیے پاکستان کی سوشل میڈیا کمپنیوں کو درخواستوں میں بے مثال اضافہ ہوا ہے۔ یہ رجحان 2017ء میں ٹوئیٹر کی ٹرانسپرنسی رپورٹ میں سامنے آیا جس میں سال کی پہلی شش ماہی میں ایسی درخواستوں میں 2 گنا اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
صرف جولائی سے دسمبر 2017ء کے درمیان حکومت کی جانب سے مواد ہٹانے کی 75 اور معلومات کی 24 درخواستیں دائر کی گئیں جبکہ ٹوئیٹر کو 674 اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹوئیٹر نے اکاؤنٹس کی معلومات اور مواد ہٹانے کی تمام درخواستیں مسترد کردیں جبکہ عالمی طور پر رجحان یہ ہے کہ ٹوئیٹر آن لائن پروپیگنڈا اور نفرت انگیز مواد کے خلاف کارروائیوں کے تحت پہلے سے کہیں زیادہ اکاؤنٹس معطل کر رہا ہے۔ حکام نے ٹوئیٹر کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے درخواستوں پر عملدرآمد نہیں کیا تو اسے ملک میں بند کردیا جائے گا۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے جون 2018ء میں ہیومن رائٹس کونسل کو جمع کروائی گئی کونٹینٹ ریگولیشن اِن پاکستانز ڈیجیٹل اسپیسز نامی رپورٹ میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو درخواستیں کی گئی ہیں، ان کی نوعیت غیر واضح تھی۔ رپورٹ کے مطابق یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ درخواستیں قانونی درخواستیں تھیں یا پھر حکومتی درخواستیں۔ ’ایسے حکومتِ پاکستان کی جانب سے درخواستوں کے انتخاب کے معیار اور مرحلے میں عدم شفافیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کی عکاس عدالتی نظرداری کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے ٹوئیٹر شاید ان درخواستوں کو مسترد کر رہا ہو۔‘
دوسری جانب فیس بک مقامی قوانین کے تحت پابندیوں کی خلاف ورزی پر قانونی درخواستوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ فیس بک ٹرانسپرنسی رپورٹ 2017ء کے مطابق اسے جولائی اور دسمبر کے درمیان حکومت سے 1320 درخواستیں موصول ہوئیں اور 59 فیصد معاملات میں فیس بک نے حکام کے ساتھ ڈیٹا شیئر کیا۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ درخواستیں رسمی تھیں یا غیر رسمی۔
دیگر پلیٹ فارمز کے برعکس گوگل حکومتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں کی نوعیت درج کرتا ہے۔ گوگل کے ٹرانسپیرنسی ریکارڈ کے مطابق اسے 2009ء سے اب تک حکومت کی جانب سے مواد ہٹانے کی 96 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جبکہ 2017ء تک اس نے 1000 سے زائد آئٹمز کو ہٹائے جانے کے لیے نامزد کیا ہے جس میں سے 52 فیصد مذہبی اشتعال انگیزی پر مبنی ہیں۔
ان تمام شکایات کے علاوہ گوگل کو حکومتِ پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی (سال بتایا نہیں گیا) کہ پاک فوج اور سینئر سیاستدانوں کو طنز کا نشانہ بنانے والی 6 یوٹیوب ویڈیوز ہٹا دی جائیں۔ مگر اس درخواست کے ردِ عمل میں ان ویڈیوز کو ہٹایا نہیں گیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواد محدود کرنے کی کوششوں کے علاوہ ملک نے کئی بین الاقوامی اشاعتوں تک رسائی پر اس وقت پابندی عائد کی گئی جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ ریاستی بیانیے سے متصادم ہیں۔ جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سماجی کارکنوں کو لاحق خطرات کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ سماجی کارکنان دھمکیوں، پرتشدد حملوں اور جبری گمشدگیوں کا سامنا کر رہے ہیں، تو یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ عارضی طور پر کچھ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے صارفین اس ویب سائٹ تک رسائی نہیں حاصل کرپا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی نیوز ویب سائٹس کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو پاکستان میں عارضی طور پر بلاک/ناقابلِ رسائی بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے اندر سیاسی اظہارِ رائے پر پابندی کی کوششیں بھی صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ نیوز ویب سائٹس بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔
بائٹس فار آل کی جانب سے ماہِ الیکشن یعنی جولائی 2018 میں کیے گئے ایک ٹیسٹ میں جیو نیوز کی ویب سائٹ (www.live.geo.tv) پاکستان ٹیلی کام کمپنی (پی ٹی سی ایل) کے نیٹ ورک پر 1 جولائی 2018ء کو 299 مرتبہ کیے گئے ٹیسٹ میں 6 مرتبہ بلاک پائی گئی۔ اسی طرح 1 جولائی 2018ء کو نیوز ون کی ویب سائٹ (www.live.newsone.tv) بھی پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ کی آئی پر 293 مرتبہ ٹیسٹ میں بلاک پائی گئی۔ ڈیلی نیوز کی ویب سائٹ (www.nydailynews) کی ویب سائٹ کو 1 جولائی 2018ء سے 23 جولائی 2018ء تک 171 مرتبہ ٹیسٹ کیا گیا اور اسے ناقابلِ رسائی پایا گیا۔ پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ، چائنہ موبائل پاک کمپنی لمیٹڈ، سائبر انٹرنیٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ پاکستان اور نیا ٹیل پر کل 694 ٹیسٹ کیے گئے تھے۔
مؤثر کنٹرول کے لیے ایف آئی اے کی کاوشیں
جہاں ٹیلی کام اتھارٹی انٹرنیٹ پر کریک ڈاؤن کے لیے شکایات اور بیرونی دباؤ میں ڈوبی ہوئی ہے وہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس اپنے الگ چیلنجز ہیں۔
پیکا، بالخصوص شق 22 اور 37 کے تحت مواد کی مانیٹرنگ اور بلاک کرنے کا کردار پی ٹی اے کا ہے مگر ان معاملات کی تحقیقات ایف آئی اے کا کام ہے۔
ایف آئی اے کے ایک افسر کے مطابق جب 2 سال قبل پیکا منظور ہوا تھا تو رپورٹ کی گئی شکایتوں کی تعداد 18 ہزار سے بڑھ کر 2018ء میں 20 ہزار ہوگئی۔ ایجنسی نے سال 2018ء میں اب تک 2925 انکوائریاں کی ہیں، 255 کیس رجسٹر کیے ہیں اور 209 گرفتاریاں کی ہیں جو کہ پیکا کے نفاذ کے بعد سے اب تک کی سب سے بلند تعداد ہے۔
سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے حکومت پر اپنے اختیارات بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ایف آئی اے سست استغاثہ کی وجہ ناکافی تکنیکی اور انسانی صلاحیت، مواد ہٹانے میں ناکامی اور متعلقہ عدالتوں سے قانونی وارنٹس کے حصول کی ضرورت کو قرار دیتی ہے۔
جون میں سینیٹ کمیٹی کی ایک میٹنگ کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائمز ڈائریکٹر (ر) کیپٹن محمد شعیب نے کہا تھا کہ ادارے کے پاس ملک بھر میں سائبر جرائم کی تحقیقات کے لیے صرف 10 ماہرین ہیں۔ ان افسر کا کہنا تھا کہ ادارہ مزید لوگوں کی بھرتی اس لیے نہیں کر رہا تھا کیونکہ پیکا کے تحت ایف آئی اے کے آپریشنز سے متعلق ضوابط اور آن لائن جانچ پڑتال کے طریقہ کار کو قانون کے نفاذ کے 2 سال بعد بھی ابھی تک حتمی شکل دی جانی باقی تھی۔
ایف آئی اے کے نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز (این آر 3 سی) کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر عون بخاری کے مطابق ’ملک میں 15 سائبر کرائم پولیس اسٹیشن اور رپورٹنگ سینٹر ہیں۔ انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد اور سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ رپورٹنگ سینٹر ہر ضلعے کی سطح پر ہونے چاہیئں۔‘ مگر وہ کہتے ہیں کہ صرف 20 فیصد شکایات ہی ان سینٹرز پر رپورٹ کی جاتی ہیں جبکہ استغاثہ کی شرح بھی اتنی ہی کم ہے کیونکہ ایف آئی اے صرف ان معاملات پر عمل کرسکتا ہے جس میں ثبوت دستیاب ہوں۔
اکتوبر میں وزارتِ داخلہ نے ایف آئی اے کو ملک میں سائبر کرائمز کے مزید 15 رپورٹنگ سینٹرز کے قیام کی اجازت دے دی۔ یہ فیصلہ پیکا کی شق 51 کے تحت لیا گیا تھا جس کے مطابق حکومت سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ اقدام ملک میں سائبر کرائمز کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر اتھایا گیا تھا۔
سینیٹ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن روبینہ خالد کہتی ہیں کہ سینیٹ کا پینل ایف آئی اے اور پی ٹی اے دونوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے مشترکہ مکینزم تیار کریں۔ اسے عوام کے بہترین مفاد میں قرار دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ: ’ہم نے ایف آئی اے کو مؤثر اختیارات اور مزید فنڈنگ کی یقین دہانی کروائی ہے تاکہ سائبر کرائمز کی روک تھام کی جاسکے کیونکہ چائلڈ پورن اور سیاستدانوں کی آن لائن ہتک میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘
مگر حقوق کے لیے کوشاں کارکنوں کے نزدیک ایف آئی اے کو مزید اختیارات دینے کا خیال ہی پریشان کن ہے کیونکہ یہ ادارہ سائبر کرائمز سے نمٹنے میں بے ضابطہ انداز اپناتا ہے۔
پیکا (جس میں 28 سیکشن ہیں) کے تحت گستاخی، چائلڈ پورن اور سائبر دہشتگردی کے معاملات میں ضمانت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ باقی 25 جرائم میں ملزم قانون کی موجودہ شکل کے تحت ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرسکتا ہے۔
بولو بھی نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والی فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ’فون کالز کی گئیں، لوگوں کو حراست میں لیا گیا، سمن جاری کیے گئے اور لوگوں کو باضابطہ جرم بتائے بغیر یا انکوائری کس بارے میں ہے یہ بتائے بغیر انکوائری کی گئی، جو کہ آئین کی شق 10 (اے) کے تحت حاصل حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ شق 20 جسے ناقابلِ دست اندازی پولیس ہونے، لہٰذا گرفتاری کے لیے وارنٹ لازم ہونے کی وجہ سے قانون کی ایک معصوم سی اور ضوابط کے اعتبار سے کم خطرناک شق قرار دیا جا رہا تھا، اسی کی خلاف ورزی کو ان ایف آئی آر میں بنیادی جرم قرار دیا گیا جب اس پورے عرصے میں کریک ڈاؤن جاری تھا۔‘
جون 2017ء میں فریحہ عزیز نے دیگر شہری حقوق کے کارکنان کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف ایجنسی کے کریک ڈاؤن کے خلاف ایک آئینی درخواست دائر کی۔ پٹیشن نے عدنان افضل قریشی نامی کارکن کے معاملے کا حوالہ دیا جنہیں ایف آئی اے نے 31 مئی 2017ء کو لاہور سے گرفتار کیا تھا اور پیکا کی شق 20 اور 24 جبکہ تعزیراتِ پاکستان کی شق 419 اور شق 500 کے تحت کے تحت ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے کا دعویٰ تھا کہ انہیں ’فوج مخالف ٹوئیٹس‘ اور ’فوجی اہلکاروں اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف بدزبانی‘ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاری حکام کی جانب سے آزادی اظہار کو کچلنے کے لیے پیکا کے غلط استعمال کی مثال تھی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پیکا کی شق 20 ’کسی فرد کی عزت کو نقصان پہنچانے‘ اور شق 24 ’سائبر اسٹاکنگ‘ (یعنی انٹرنیٹ پر کسی پر نظر رکھنے) سے متعلق ہے۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ’اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ گرفتار ہونے والے کارکن نے ٹوئٹر اور فیس بک پر فوج کے خلاف تنقید پر مبنی تبصرے لکھے تو پھر بھی انہیں پیکا کی شق 20 اور 24 کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں تصور کیا جا سکتا۔ واقعتاً پیکا افواج پر تنقید سے منع نہیں کرتا اس لیے اس گرفتاری کی بنیاد نہیں بنتی۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ایف آئی اے نے کئی سیاسی و سماجی کارکنوں کو بھی انکوائری نوٹسز بھیجے تھے۔ انکوائری نوٹسز میں ان افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ مخصوص تاریخ اور وقت پر ایف آئی اے کے انسدادِ دہشتگردی پولیس اسٹیشن میں پیش ہوں۔ مگر درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ انکوائری نوٹس اپنی نوعیت میں مبہم تھے اور ان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کس مبینہ جرم کی تحقیق کے لیے انکوائری شروع کی جا رہی ہے، نہ ہی الزام لگانے والے کا نام تحریر تھا اور نہ ہی مطلوبہ معلومات گنوائی گئی تھیں۔
درخواست گزاروں کے مطابق ’واقعتاً یہ نوٹسز واضح طور پر آزادی اظہار سے روکنے اور آزادی اظہار کر رہے لوگوں کو ہراساں کرنے اور ڈرانے کی ایک بدنیت کوشش کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھے۔‘
درخواست کے جواب میں تبصرہ کرتے ہوئے ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ پوری کارروائی قانون کے تحت تھی اور ایف آئی آر انٹرنیٹ پر حکومتِ پاکستان، افواجِ پاکستان، اور اعلیٰ فوجی قیادت کے خلاف ہتک آمیز اور قابلِ اعتراض مواد اپ لوڈ کر کے اور پھیلا کر کردار کشی میں ملوث افراد کے خلاف انکوائری کے بعد رجسٹر کی گئی تھی۔
ادارے نے مؤقف اختیار کیا کہ ’اس طرح کی غیر قانونی حرکتیں مختلف حکومتی اداروں میں بے چینی پیدا کر رہی ہیں جبکہ حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت اور توہین پر اکسا رہی ہیں۔‘
تحقیقات اور تکنیکی ماہرین کی جانب سے کردار کشی کی مہم میں ملوث سوشل میڈیا صارفین کے ’تجزیے‘ اور ’پروفائلنگ‘ جاری ہونے کا مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایف آئی اے نے کہا کہ یہ پورا مرحلہ پیکا کی شق 20 (1) کے تحت ہے جس میں کسی فرد کی تکریم کے خلاف جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد جنہوں نے اس کیس میں درخواست گزاروں کی نمائندگی کی، ان کے مطابق گزشتہ سال سے اب تک اس کیس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
بخاری، جنہوں نے 8 سال تک پیکا کی ڈرافٹنگ پر کام کیا ہے، انہیں لگتا ہے کہ غیر قانونی مواد مثلاً ایک فرد کی تکریم کے خلاف، گستاخی اور نفرت انگیز تقریر کے متعلق شقیں مؤثر ضابطہ کاری کے لیے شامل کی گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو یہ آگاہ کرنا چاہیے کہ قانون کس چیز کا احاطہ کرتا ہے۔ آئین اور قانون واضح طور پر ریاستی اداروں [جس میں تمام حکومتی ادارے، محکمے اور مسلح افواج شامل ہیں] کے خلاف نفرت انگیز/گمراہ کن مواد کی اشاعت کو قابلِ تعزیر قرار دیتے ہیں۔‘
مگر پیکا کی شق 37 جو کہ غیر قانونی مواد کا تعین کرتی ہے، اس میں ریاستی ادارے شامل نہیں ہیں۔ سائبر کرائم ایکٹ پر اسپیشلائزیشن کر رہے ایک سینیئر وکیل کے مطابق ’مسئلہ یہ ہے کہ یہ فقرہ 'پاکستان کے دفاع، سلامتی اور سالمیت' تشریح کے لیے کھلا ہے اور اس کا دائرہ کار اکثر [بلاجواز طور پر] افراد تک بھی پھیلا دیا جاتا ہے۔‘
اختلافِ رائے دبانے کی کوششیں
5 جولائی کو سوشل میڈیا کارکن حیات پریغل کو انٹرنیٹ پر 'ریاست مخالف' مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ حراست کے دوران پریغل کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور یو ایس بی کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ نے کھنگالا۔ بعد از گرفتاری ضمانت میں عدالت نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ پریغل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، اور اگر انہیں قومی مفاد کے خلاف کچھ بھی کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
ڈرائے جانے اور نظر رکھے جانے کا ان کا کیس کوئی اکلوتا کیس نہیں ہے۔
گزشتہ 2 سالوں سے پاکستانی صحافی اور کارکن ہراسگی، دھمکیوں اور تشدد کی وجہ سے معاندانہ ماحول کا سامنا کر رہے ہیں۔ جون میں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو ایک سنسنی خیز پیغام دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کو ملک اور اس کے اداروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس میں اضافہ ہو رہا ہے جو پاکستان مخالف اور فوج مخالف مواد حقائق کے برعکس شائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان اکاؤنٹس (بشمول صحافیوں کے اکاؤنٹس) کا ایک سلائیڈ شو چلایا اور اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سازشیں پھیلانے والے صارفین سوشل میڈیا کو عوام میں ’اتھل پتھل‘ پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کی صلاحیت موجود ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی نے ‘بوجھل دل کے ساتھ‘ کئی ایسے اکاؤنٹس کی بھی ایف آئی اے کو سیاسی پوسٹس کے لیے اطلاع دی تھی جو کہ فوج کے حامی تھے۔
حال ہی میں تشکیل پانے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی سوشل میڈیا پر سخت پابندیوں کا عندیہ دیا ہے۔ جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ روکنے پر مصر وزارتِ اطلاعات نے ٹوئٹر پر جھوٹی خبروں کو چاک کرنے کے لیے ایک اکاؤنٹ بنایا ہے جس سے صارفین کو باقاعدگی سے خبردار کیا جاتا ہے کہ گمراہی پھیلانے کے لیے جعلی اکاؤنٹس کا استعمال قابلِ تعزیر جرم ہے۔
بڑھتے ہوئے منفی ردِ عمل کے ساتھ ساتھ فیک نیوز کی ایک اور صورت بھی گردش کر رہی ہے۔ خبروں کے جھوٹے اسکرین شاٹ پھیلائے جا رہے ہیں تاکہ کسی مخصوص میڈیا ادارے پر تنقید کو فروغ دیا جا سکے۔
مگر مواد پر مؤثر کنٹرول کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے دیگر میڈیمز کے علاوہ سوشل میڈیا کو منضبط کرنے کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ آن لائن بحث و مباحثے پر اس کا بڑھتا ہوا کنٹرول ایک پریشان کن حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
قانونی طریقہ کار
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کہتی ہیں کہ "قانون کا اطلاق مسائل سے بھرپور ہے۔" ان کا کہنا ہے قواعد و ضوابط اور قانونی طریقہ کار نہایت مبہم اور بے ہنگم ہے جس کی وجہ سے قانون کو دوسروں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ "بڑھتے ہوئے انٹرنیٹ کریک ڈاؤن اور حکام کی جانب سے انٹرنیٹ پر محتاط رہنے کے لیے خبردار کرنے کے باعث ملک میں از خود سینسرشپ کی فضا موجود ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ اب شہری بھی ذاتی تنازعات کا بدلہ لینے کے لیے قانون کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ہے کہ "لوگ اب اپنے نظریات انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں کوئی حکام کو ان کے غیر قانونی ہونے کی اطلاع نہ دے دے۔"
سائبر کرائم کے مقدمات میں شفافیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایف آئی اے نے لوگوں کو تفتیش کے لیے سمن جاری کیے مگر زیادہ تر معاملات میں اس کے فوراً بعد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے لوگوں تک تفتیش کے لیے رسائی کے لیے بھی نہایت پراسرار انداز اپناتا ہے۔ "اس لیے میں لوگوں پر زور دیتی ہوں کہ جیسے ہی انہیں ایف آئی اے سے نوٹس موصول ہو، وہ فوراً وکیل سے مشورہ کریں۔"
تحفظات صرف تفتیشی مرحلے تک محدود نہیں ہیں۔ عزیز کہتے ہیں کہ "ابتدائی مرحلے میں جب ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو وہ الزامات بھی شامل کر دیے جاتے ہیں جن کا اطلاق نہیں ہوتا۔" تعزیراتِ پاکستان یا انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی قابلِ دست اندازی پولیس دفعات بھی شامل کر دی جاتی ہیں تاکہ براہِ راست تفتیش اور گرفتاری کے لیے وارنٹس کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اکثر اوقات قانون کی شقوں کا مبینہ جرم پر اطلاق نہیں ہوتا اور ان کی سزا نہایت زیادہ ہوتی ہے۔ پیکا کے کیسز میں یہ بہت عام بات بنتی جا رہی ہے۔"
اس پورے پیچیدہ مرحلے کو سادہ الفاظ میں سمجھانے کے لیے پیکا ڈرافٹ کرنے والے ایک قانون دان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانون کے تحت دو طرح کے جرائم ہیں: قابلِ دست اندازی پولیس (سائبر دہشتگردی اور غداری جس میں کوئی بھی شکایت کنندہ بن سکتا ہے) اور ناقابلِ دست اندازی پولیس (نجی معاملات جس میں صرف متاثرہ فریق ہی مقدمہ درج کروا سکتا ہے نہ کہ تفتیشی ادارہ)۔
وہ بتاتے ہیں کہ عام حالات میں ناقابلِ دست اندازی پولیس جرم میں گرفتاری مجسٹریٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ مگر یہی وجہ ہے کہ تعزیراتِ پاکستان یا انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی دیگر دفعات بھی شامل کر دی جاتی ہیں تاکہ ناقابلِ دست اندازی پولیس جرم میں گرفتاری آسان بنائی جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ "قوانین کا یہ اختلاط حکام کی جانب سے ذاتی مفادات کے لیے قوانین کے استحصال کی وجہ بنتا ہے۔ پیکا 30 دن کے اندر لوگوں کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے وکیل فراہم کرتا ہے۔"
انگلش میں پڑھیں۔ یہ رپورٹ ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 28 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی۔