• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

’حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے کوشاں‘

شائع October 31, 2018
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے حکومت پوری کوشش کررہی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فو زیہ صدیقی سے ملاقات ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد نکلیں

اس موقع پر وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کے لیے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی ایک سنجیدہ موضوع ہے۔

انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے خاندان کو درپیش مسائل اور پریشانی سے باخوبی آگاہ ہیں۔

واضح رہے کہ رواں برس 7 جون کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے امریکا میں قید پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی رپورٹس پر اٹارنی جنرل اور امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کو ہدایت کی تھی کہ 3 دن کے اندر عافیہ صدیقی سے زندگی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی اور پاکستان منتقل کرنے سے متعلق ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’حکومت، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی تک قیدیوں کی امریکا منتقلی روک دے‘

عدالت میں فوزیہ صدیقی نے بتایا تھا کہ میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ امریکا میں پاکستانی قونصل جنرل نے عافیہ صدیقی سے ملاقات کی ہے لیکن جب ان سے اس بات کا سرٹیفکیٹ مانگا گیا تو انہوں نے وہ فراہم نہیں کیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل کچھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں گردش کررہی تھیں،جس کے بعد 23 مئی کو امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق نے کارس ویل، ٹیکساس میں فیڈرل میڈیکل سینٹر (ایف ایم سی ) میں موجود جیل میں عافیہ صدیقی سے 2 گھنٹے تک ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی افواہیں دم توڑ گئی تھیں اور پاکستانی قونصل جنرل کی جانب سے ان افواہوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

ہیوسٹن میں موجود پاکستانی قونصلیٹ جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران پاکستانی قونصل جنرل 4 مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن نہیں‘

تاہم اس بارے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بہن کی زندگی اور صحت سے متعلق کسی خبر کی تصدیق نہیں کرسکتیں، کیونکہ اس بارے میں انہیں حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام نے کچھ نہیں بتایا۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آن لائن قیدیوں کے اسٹیٹس سے متعلق بتایا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اسٹیٹس زندہ لکھا ہوا ہے اور اگر کسی قیدی کا اسٹیٹس تبدیل کیا جاتا ہے تو امریکی قوانین کے مطابق اہلخانہ کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ نے ڈاکٹر فوزیہ نے مزید بتایا تھا کہ ان کا گزشتہ 2 سال سے عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی پاکستانی اور امریکی حکام سے انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

عافیہ صدیقی کی کہانی

پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔

عافیہ صدیقی کو لاپتہ ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عافیہ صدیقی کے گھر پر نامعلوم افراد کا حملہ

امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔

جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir Nov 01, 2018 11:07am
They should swap her with Dr. Afridi.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024