کراچی پریس کلب کے ستار بھائی بلاول کے منتظر کیوں ہیں؟
بلاول کراچی پریس کلب کب آئے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کلب کے دیرینہ ملازم ستار بھائی ہم سے اکثر پوچھتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل کراچی پریس کلب اور ستار بھائی کا ذکر ضروری ہے۔
پریس کلب کراچی شہر کے وسطی علاقے میں ایک ایسا مقام ہے کہ اگر آپ کسی بھی رکشہ، ٹیکسی یا دورِ جدید میں جو ٹرانسپورٹ کی سہولیات آئی ہیں ان کو بتا دیں کہ پریس کلب جانا ہے تو وہ آپ سے دوسرا کوئی سوال نہیں کرتے اور ٹھیک ٹھیک منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
پریس کلب کی عمارت 1882ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس عمارت سے وابستہ بہت ساری دیومالائی کہانیاں ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ لارنس آف عربیہ نے بھی اس عمارت میں قیام کیا تھا اور یہاں سے ہی وہ اپنے ٹائپ رائٹر کے ذریعے مختلف پیغامات سرکارِ انگلشیہ کو ارسال کرتے تھے۔ ایک کہانی یہ بھی ہے کہ جنرل اسکندر مرزا بھی یہاں ایک عرصے تک رہائش پذیر رہے، یہ وہی اسکندر مرزا ہیں جو پاکستان کے پہلے صدرِ مملکت بنے اور پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب نے انہیں برطرف کیا اور پھر نہ صرف جلاوطنی پر مجبور کیا بلکہ انتقال کے بعد ان کی لاش کو پاکستان لانے کی اجازت بھی نہیں دی۔
یہ وہی پریس کلب ہے جس کی روایات میں ایک بات بڑی اہم ہے کہ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وردی پہنے کسی بھی شخص کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اس کلب میں کسی بھی سیاست دان کو کوئی بھی اندر آنے سے نہیں روک سکتا، پھر چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، دورِ آمریت کا ہو یا جمہور کا۔ یہ تو تھی ایک بات، پریس کلب کی روایات اور اس سے وابستہ شخصیات اپنی جگہ۔
پڑھیے: کراچی پریس کلب میں 24 برس بعد مشاعرہ
1958ء میں یہ پریس کلب وجود میں آیا۔ بہت کم لوگ اس وقت اس پریس کلب کے رکن بنے لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھتی گئی۔ جوں جوں یہ لوگ اپنے صحافتی عہدوں سے ریٹائر ہوتے گئے ان میں سے اکثر اپنے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ گئے یا بیرونِ ملک جا کر آباد ہوگئے۔ ان میں سے چند ہی لوگ اس جہان میں موجود ہیں اور وہ کبھی کبھار بیرون ملک یا اپنے آبائی علاقوں سے کسی نہ کسی وجہ سے کراچی آتے ہیں تو پریس کلب ضرور آتے ہیں۔
گیٹ پر کھڑا چوکیدار جب ان سے بازپرس کرتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ستار کو بلاؤ۔ جب ستار کو بلایا جاتا ہے تو ستار بڑے پیار سے اور دھیمے انداز میں چوکیدار کو سمجھاتا ہے کہ یہ فلاں صاحب ہیں، ابھی 40 سال پہلے ہی لاہور چلے گئے تھے۔
پھر وہ بڑے احترام کے ساتھ انہیں اندر لاتا ہے اور اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ ستار پریس کلب کی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہنے کو تو ایک خدمت گار ہے لیکن پریس کلب کے اراکین میں شامل نوجوان، عمر رسیدہ اور ترکِ وطن کرنے والے ساتھی انہیں بخوبی جانتے ہیں۔
عموماً وہ صبح سے ہی پریس کلب میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے پہنچ جاتے ہیں اور رات گئے تک موجود رہتے ہیں۔ ستار کی پریس کلب میں ملازمت دو چار برس کی بات نہیں بلکہ ’نصف صدی کا قصہ‘ ہے۔ ستار کو پریس کلب میں ملازمت کرتے ہوئے 50 برس بیت چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے پرفضا ضلع ایبٹ آباد میں جنم لینے والے ستار نے جب کراچی پریس کلب میں ملازمت اختیار کی تو اس وقت ان کی مسیں بھیگی تھیں۔
50 برس کے بعد ستار سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے کا حامل ہے جن کے ہاتھ اب رعشے کی وجہ سے بے پناہ کانپتے ہیں۔ ستار 70 برس کے قریب ہونے کے باوجود شاید کلب ملازمین میں آج بھی سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ انہیں نچلا بیٹھتے ہوئے کم ہی دیکھیں گے۔ اسی لیے پریس کلب کی زیریں منزل سے لے کر بالائی منزل تک وقفے وقفے سے آواز آتی رہتی ہے ستار بھائی میری گاڑی خراب ہوگئی ہے، ستار بھائی فوراً پہنچ جاتے ہیں اسی دوران کوئی کہتا ہے میرے مہمان آگئے ہیں ستار بھائی انھیں کھانا کھلانا ہے وہ وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اکثر لوگ ان سے کافی پینے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔
ارے ہاں کافی سے یاد آیا کہ ہر تیسرے چوتھے دن وہ مجھ سے آکر سرگوشی میں پوچھتے ہیں بلاول بھٹو کب آئے گا؟ میں جواباً کہتا مجھے نہیں معلوم لیکن سنا ہے کہ وہ جلد آئیں گے۔ کبھی کبھار آکر یہ کہتے کہ سنا ہے وہ نئی بلڈنگ کا افتتاح کرنے آرہے ہیں۔ میں بیزاری میں کہتا ہاں ہو سکتا ہے۔ میں ان کے اس ایک سوال سے عاجز آگیا تھا اور میں نے اس کا ذکر اپنے صحافی دوستوں سے کیا تو انہوں نے کہا کہ یار کہہ دو ایک دو روز میں آجائے گا۔
مجھے ان کا فارمولہ پسند آیا۔ دو چار روز بعد جب ستار نے پوچھا کہ بلاول کب آئے گا تو میری حالت غیر ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ انہیں کیا جواب دوں۔ اتنی دیر میں کسی کی آواز آئی، "ستار بھائی، ذرا ٹھنڈا پانی پلادو۔" انہوں نے بات ادھوری چھوڑی اور پانی لینے کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ ہمارے لیے ایک اچنبھے کی بات تھی کہ وہ بلاول کو کافی کیوں پلانا چاہتے ہیں؟ لیکن اس وقت بات آئی گئی ہوگئی۔
ستار بھائی کو جب بھی تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے تو وہ ہمارے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے مخصوص ہندکو لہجے میں پریس کلب کے حوالے سے اپنی یاداشتیں بیان کرتے ہیں۔ اگر اس دوران "ستار، ستار" کی آوازیں آ بھی جائیں تب بھی وہ ان پر کان نہیں دھرتے بلکہ کہانی ختم کرکے ہی اٹھتے ہیں۔
پریس کلب کے پرانے اور سینئر صحافیوں کا ذکر کرتے ہوئے ستار بھائی کا لہجہ گلوگیر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ان کی آواز بھی رندھ جاتی ہے۔ لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر طاری نہیں رہتی، وہ اچانک قہقہہ لگاتے ہوئے وہی چٹخارے دار کہانی شروع کردیتے ہیں جن میں سے اکثر ناقابلِ بیان ہوتی ہیں۔
ایک روز انہوں نے شاعرِ عوام حبیب جالب کی کراچی پریس کلب میں اکثر آمد کا ذکر کیا۔ ستار نے حبیب جالب کے پریس کلب میں قیام کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’حبیب جالب بہت اچھے اور عظیم انسان تھے۔ ستار اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے حبیب جالب کی پریس کلب میں ہر ممکن خدمت کی اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔‘
سنِ ضعیفی کی وجہ سے ستار کی یادداشت سے کوئی خاص واقعہ تو ہم نہیں نکال سکے البتہ انہیں حبیب جالب کی وفات کے بعد ان کی یاد میں کراچی پریس کلب میں ہونے والا جلسہ خوب یاد ہے۔ ستار نے بتایا کہ ’اس جلسے میں بیگم نصرت بھٹو خصوصی طور پر تشریف لائی تھیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’لاہور سے حبیب جالب کی بیوہ بھی تشریف لائی تھیں، انہوں نے بھی شاعری پڑھی۔ ان کی شاعری میری سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ انہوں نے پنجابی میں شاعری پڑھی۔ جالب صاحب کی بیوہ جب آئیں تو سارے لوگ کھڑے ہو گئے تھے۔‘
ستار کے مطابق حبیب جالب کی یاد میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ ان کی یادداشت کے مطابق کراچی پریس کلب میں کسی کی بھی یاد میں منعقد ہونے والے سب جلسوں سے بڑا تھا۔ اپنے مخصوص لہجے میں ستار نے بتایا کہ ’جیڑا سفید بالاں والا بندہ جیڑا معین اختر نال ٹی وی تے مزاقیہ پروگرام کرتا تھا او بھی آیا سی‘ (وہ جو سفید بالوں والا بندہ معین اختر کے ساتھ ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام کرتا تھا، وہ بھی آیا تھا)۔ ہم سمجھ گئے کہ اس سے مراد انور مقصود صاحب ہیں جو حبیب جالب کی یاد میں ہونے والے جلسے میں تشریف لائے تھے۔
اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر منیر نیازی کی کراچی پریس کلب میں آمد و رفت بھی ستار کی یادوں میں محفوظ ہے۔ منیر نیازی کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک روز منیر نیازی نے ’شام کے بعد‘ کلب کے ایک ویٹر قیوم کو پکڑ لیا۔ منیر نیازی باریش قیوم کو پکڑ کر کہتے تھے ’تم محمود شام ہو‘۔ قیوم انہیں بتاتا رہا کہ وہ محمود شام نہیں بلکہ قیوم ہے اور کلب میں بیرا ہوں۔ منیر نیازی بولے، ’بہرے تو تم ہو ہی، لیکن سنتے سب ہو‘۔ ستار نے یہ دیکھا تو وہ بھاگ کر کلب کے صدر عبد الحمید چھاپڑا کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ منیر نیازی نے قیوم کو محمود شام سمجھ کر پکڑ لیا۔
چھاپڑا صاحب بھاگ کر گئے اور قیوم کی جان چھڑائی۔ ستار کی یادداشت میں شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کی کراچی پریس کلب میں آمد و رفت بھی محفوظ ہے۔ ستار اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جوش ملیح آبادی جیسے بڑے شاعر کی بھی خوب خدمت کی۔
اسی طرح فیض احمد فیض کو بھی ستار یاد کرتے ہیں جو اکثر پریس کلب کا چکر لگاتے رہتے تھے۔ ستار نے ہمیں ایک دلچسپ بات بتائی کہ پریس کلب کے ایک مرحوم باورچی عبد السلام احمد فراز کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے اور اسی بنا پر انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام احمد فراز تو نہیں البتہ محمد فراز رکھا جو اب اپنے مرحوم والد کی جگہ پریس کلب میں باورچی کا کام کررہا ہے۔
ستار نے ان 50 برسوں میں کراچی پریس کلب کے 50 صدور اور سیکرٹریوں کو بدلتے دیکھا۔ انہیں منہاج برنا اور نثار عثمانی کے کراچی پریس کلب میں بیتے دن یاد ہیں۔ ستار کے مطابق یہ دونوں بڑے لوگ تھے جن کی میں نے بڑی ’خدمت‘ کی۔
پڑھیے: خواجہ ناظم الدین: وزارتِ عظمیٰ سے تنگدستی تک
50 برسوں میں ستار نے کراچی پریس کلب میں بہت کچھ دیکھا جن میں سے کچھ انہیں یاد ہے اور کچھ ان کی یادوں سے محو ہوچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ صحافی ایسے گزرے جنہوں نے پریس کلب کے ملازمین کا بہت خیال رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے راہی ملک عدم ہونے والی نرگس خانم کو یاد کرتے ہوئے ستار نے بتایا کہ وہ ملازمین کے سلسلے میں سب سے لڑ جاتی تھیں۔ اسی طرح انہیں ایک صحافی بھی یاد ہیں جو پریس کلب کے کارڈ روم میں تاش کے کھیل میں ہارنے کے بعد اکثر پتے پھینک دیا کرتے تھے۔ انہیں بہت سے لڑائی اور پھڈے بھی یاد ہیں جو کراچی پریس کلب میں ہوئے۔
اتوار کے روز ستار بھائی دیر سے پریس کلب آتے ہیں۔ اتوار کے دن پریس کلب میں صحافیوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ میرا ایک دوست کے ساتھ ریگل چوک اور فریئر ہال پر پرانی کتابوں کی چھانٹی کا پروگرام تھا۔ وہاں سے خاصی کتابیں سستے داموں خرید کر میرے دوست نے گھر روانگی سے قبل چائے پینے کی فرمائش کی۔
شام کے 5 بج چکے تھے۔ دوست چائے پی کر روانہ ہی ہونا چاہتا تھا کہ اچانک ستار بھائی پریس کلب کی بالائی منزل پر آگئے۔ جیسے ہی میری نگاہیں ستار بھائی کی نگاہوں سے ملیں تو میں نے فوراً دوست کی طرف دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ اگلا سوال ستار بھائی کی طرف سے کیا ہوگا؟ ہم دونوں ذہنی طور پر تیار ہوچکے تھے کہ اب کیا نیا ڈرامہ کرنا ہے۔
ستار بھائی ہماری میز پر پہنچے تو ہم نے انہیں بیٹھنے کے لیے کہا۔ بیٹھتے ہی انہوں نے سوال داغ دیا کہ بلاول کب آئے گا؟ مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں نے کہا بلاول آئے نہ آئے، آپ آخر یہ سوال بار بار کیوں پوچھتے ہیں؟
ستار بھائی کے چہرے پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کے بعد وہ یوں گویا ہوئے، ’شہید بی بی جب بھی پریس کلب آتی تھیں تو ان کے لیے میں کافی بناتا تھا، بینظیر بھٹو کافی پسند کرتی تھیں جس میں ڈیڑھ سے دو چمچ چینی ان کے لیے بہت ہوتی تھی اور یہ بات صرف میں ہی سمجھتا تھا اس لیے مجھے ہی ان کے لیے کافی بنانے کا کہا جاتا تھا۔
’ویسے تو میں سب کے لیے ہی کافی بناتا تھا لیکن شہید بی بی کی کافی بہت محنت سے تیار کرتا تھا۔ جب میں نے آخری بار انہیں کافی پیش کی تو اس موقعے پر ایک فوٹو گرافر نے میری ان کے ساتھ تصویر بنائی۔ بعد ازاں محترمہ نے اس پر اپنے دستخط بھی کیے۔ یہ تصویر آج بھی میرے پاس محفوظ ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ میں نے یہاں ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کو بھی دیکھا ہے، بی بی شہید کو بھی دیکھا ہے لیکن اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ بس چل چلاؤ ہے، ایک ہی آخری خواہش ہے کہ شاید بلاول پریس کلب آجائے اور میں اسے اس کی والدہ کو بنا کر پلائی جانے والی کافی پلا دوں۔‘
یہ جملہ ختم ہوتے ہی انہوں نے پھر ہماری طرف دیکھا اور یہ سوال نہیں کیا کہ بلاول کب آئے گا، بلکہ پیٹھ موڑ کر دروازے کی طرف چل پڑے۔
ہم دونوں کی آنکھیں جب ملیں تو ان میں ایک ہی سوال تھا کہ بلاول کب آئے گا؟
تبصرے (7) بند ہیں