پاکستانی فلم انڈسٹری کی فلاپ سوچ
عدنان سرور کو آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ بہت کم لوگ اس نام سے واقف ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور موٹرکار ریسنگ کے شائق ہیں۔ عدنان سرور نے کچھ سال پہلے لیاری کے معروف باکسر حسین شاہ کی زندگی پر ایک فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ کئی ماہ لگا کر اس فلم کا اسکرپٹ لکھا اور پھر کراچی آگئے۔ یہاں کے بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز نے اس کہانی پر فلم بنانے کے لیے ان سے 2 کروڑ سے 4 کروڑ تک مانگے۔
عدنان سرور مایوس ہوگئے۔ انہوں نے انفرادی طور پر فلم پروڈکشن کے لیے پروفیشنل حضرات ہائر کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی بُری طرح سے ناکام ہوئے۔ اگرچہ ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی تو موجود تھا مگر اسے اری الیگزا کیمرہ، بے پناہ لائٹس اور دیگر لوازمات درکار تھے۔ دوسری طرف آرٹ ڈائریکٹر کے پاس غیر ضروری پراپس اور اشیائے چمک دھمک کی ایک لمبی لسٹ تھی۔
اے سٹار آرٹسٹوں نے اس تجرباتی فلم میں کام کرنے کو اپنی توہین قرار دیا اور بی کلاس اداکاروں نے معاوضہ اتنا مانگا کہ عدنان سرور کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ الغرض ہر شعبے میں اسے یہاں پر ٹوپی پہنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور اسے فلمی تکنیک سے نابلد پینڈو قرار دیا گیا۔ اب اس پوری صورتحال سے مایوس ہوکر عدنان سرور واپس لاہور چلا گیا۔
عدنان سرور نے 6 ماہ باکسنگ کی ٹریننگ حاصل کی، شادی کی موویز بنانے والے 2 کیمرہ مین حسن زیدی اور عمر دراز کو ہائر کیا۔ ایک خاتون دوست کو اسسٹنٹ و آرٹ ڈائریکٹر بنایا، بلیک میجک کیمرہ اور ایک لیپ ٹاپ پکڑا اور کراچی واپس آیا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے معاون تھیٹر اداکار لیے اور ایک ماہ میں فلم شوٹ کرلی۔
اس کے بعد کی پوسٹ پروڈکشن کا کام ایک کم بجٹ کے پروڈکشن ہاؤس سے پاکستان میں ہی کروایا اور محض 80 لاکھ روپے، جی ہاں صرف 80 لاکھ روپے میں اس نے وہ فلم بنا ڈالی جسے بنانے کے لیے 4 کروڑ تک مانگے جا رہے تھے۔ فلم یوٹیوب پر موجود ہے، آپ اسے دیکھ لیں۔ فلم کی کہانی اور اداکاری اتنی جاندار ہے کہ آپ فلم کی تکنیکی خامیوں کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
عدنان سرور کی اس فلم کو اندرون و بیرون ملک نقادوں نے بہت سراہا۔ عدنان سرور نے فلم شاہ سے خود کو متعارف کروایا اور پھر 2018ء میں موٹرسائیکل گرل جیسی فلم بنا کر خود کو پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بطور باصلاحیت ڈائریکٹر کے منوا بھی لیا۔
ہماری فلم انڈسٹری کا موجودہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے فلم میکرز کا تعلق ڈرامہ انڈسٹری سے ہے اور وہ کیمرہ اور بڑی پروٖڈکشن ٹیم کے ساتھ ڈرامے ہی بنا رہے ہیں جنہیں انتہائی مہنگا کلر گریڈ کروا کر فلم کے نام سے سنیما پر پیش کردیا جاتا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے فلم میکرز کا یہ خیال ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک بچگانہ فلم بناتے جائیں گے اور اس پر ان کی ستائش بھی کی جائے گی کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنا جیسے ہر پاکستانی مرد و عورت پر فرض ہے۔
اسی سوچ نے لاہور کی فلم انڈسٹری کو تباہ کردیا۔ سید نور جیسے ڈائریکٹر 16 فلاپ فلمیں دینے کے باوجود ایک ساتھ 8 مزید فلمیں ڈائریکٹ کر رہے تھے اور کراچی کے کئی باصلاحیت ڈائریکٹر اور لکھاری اسکرپٹ ہاتھ میں لیے لاہور میں مارے مارے پھررہے تھے۔
لولی وڈ فلم اینڈ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اگر 150 احباب کے سوشل کلب کا نام ہے تو آپ کی بات ٹھیک ہے اور اگر فلم انڈسٹری ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے تو پھر معیار اچھی فلم ہی ہوگا۔ آپ کو نامعلوم افراد، مور، شاہ، لوڈ ویڈنگ، کیک، پری، موٹرسائیکل گرل کو سراہنا ہوگا اور لاہور سے آگے، راستہ جیسی فلموں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔
فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو طے کرنا ہوگا کہ ستائش کا پیمانہ ایک عمدہ اور معیاری فلم ہے یا روز مرہ کی بنیاد پر پارٹی کرنے والا ان کا حلقہ احباب؟ لاہور فلم انڈسٹری کو یہ سمجھ نہیں آیا تو آج سید نور جیسے درجنوں سپر ہٹ فلمیں دینے والے بے روزگار اور ساحر لودھی جیسے نو سکھئے فلم میکر بن گئے ہیں، آپ کو وقت پر سمجھ نہیں آیا تو یہ فلم انڈسٹری واپس لاہور چلی جائے گی جہاں کا عدنان سرور کراچی آکر بلیک میجک کیمرے سے چند لاکھ میں ایک ایسی معیاری فلم بنا گیا جس کی کراچی میں کسی فلم میکر کو بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔
سنجے لیلا بھنسالی مایہ ناز بولی وڈ ڈائریکٹر ہیں۔ خاموشی، ہم دل دے چکے صنم، دیوداس اور رام لیلا جیسی شاہکار فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ موصوف کا کمال یہ ہے کہ 2 سال دن رات لگا کر ایک فلم بناتے ہیں اور کامیابی کا مزہ چکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
فرماتے ہیں کہ ہم جو 2 سال کی محنت کے بعد ایک فلم بناتے ہیں، اس فلم کو ابتداء سے لے کر ایڈیٹنگ تک، درجنوں بار دیکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اس فلم میں وہ خامی یا خرابی نہیں ڈھونڈھ پاتے جو فلم ریلیز ہونے کے بعد پہلے شو میں 100 روپے کی ٹکٹ لے کر دیکھنے والا ایک چھابڑی فروش نکال لیتا ہے۔ پبلک آپ کی 3 گھنٹے کی فلم دیکھ کر وہیں پر بتا دیتی ہے کہ فلم میں کیا کیا خوبیاں اور خامیاں تھیں یا اس فلم کو مزید بہتر کیسے بنایا جا سکتا تھا۔
عامر خان بولی وڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ ہیں۔ ان کی پہلی فلم 'قیامت سے قیامت تک' سے آخری فلم دنگل تک ان کا اصول رہا ہے کہ وہ اپنی فلم مکمل ہونے کے بعد اسکرین ٹیسٹ کے لیے عام فلم بینوں کو مدعو کرتے ہیں جو معاشرے کے عام ترین طبقے سے ہوتے ہیں۔ ان کو فلم دکھاتے ہیں اور پھر ان سے رائے لیتے ہیں اور اس رائے کی روشنی میں فلم کی ایڈیٹنگ میں رد و بدل کرتے ہیں۔
کومل مہتا کے پروگرام میں انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عام فلم بین فلم کو جس باریکی اور گہرائی سے جج کرتا ہے وہ فلم بزنس سے وابستہ ان لوگوں کے بس کی بات ہی نہیں جو فلم بناکر اس کے فلاپ ہونے پر رو رہے ہوتے ہیں کہ آخر اس فلم میں بُرا کیا تھا؟ لوگوں کو پسند کیوں نہ آئی؟
لہذا ہمیں ادراک کرنا ہوگا کہ ہمارا فلم بین بہت مچیور ہے۔ وہ ہولی وڈ اور دیگر ممالک کی فلمیں دیکھتا ہے۔ اسے سستی کامیڈی کے بجائے عمدہ موضوعات پر اگر اچھی فلمیں بنا کر دکھائی جائیں گی تو وہ ضرور دیکھے گا۔ '5 کروڑ سے کم میں فلم نہیں بن سکتی' یا 'جو فلم 5 کروڑ سے کم میں بنی ہے، اس کو ہم ریلیز کرنے میں لیت و لعل سے کام لیں گے' کا جو بیانیہ ہمارے پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ اسے انہیں بدلنا ہوگا۔
کمرشل فلمیں بنائیں، خوب بنائیں مگر تجرباتی فلموں کی اور ان کو بنانے والے فلم میکرز کی بھی حوصلہ افزائی فرمائیں کہ ہمارے ہاں سنیما تو ختم ہوچکا ہے۔ ملٹی پلیکس آڈیئنس کے بل بوتے پر آپ ہر بار 5 تا 10 کروڑ کی فلم بنا کر اس سے 30 کروڑ نہیں کما سکتے مگر آپ ایک کروڑ لاگت تک کی فلموں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ایسی فلمیں مناسب پبلسٹی اور شوز ملنے پر نہ صرف اپنی لاگت پوری کرنے میں کامیاب ہوں گی بلکہ فلم میکرز، ڈسٹری بیوٹرز اور سنیما مالکان کو چار پیسے کما کر بھی دیں گی۔
تبصرے (17) بند ہیں