یہودی عبادت گاہ پر حملے کا آنکھوں دیکھا حال
امریکا کے شہر پٹس برگ میں یہودی عبادت گاہ میں ہولناک حملے کے عینی شاہدین نے واقعے کا آنکھوں دیکھا حال اور اپنی جان بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حملے میں محفوظ رہنے والے افراد نے بتایا کہ آخر کس طرح انہوں نے اسٹوریج روم میں پناہ لے کر اپنی زندگی بچائی۔
حملے کے وقت عبادت گاہ میں موجود ربی پیرل مین کا کہنا تھا کہ شوٹنگ سے متعلق تربیتی مشق نے انہیں حادثے میں کئی زندگیاں بچانے میں مدد دی۔
یہودی عبادت گاہ میں فائرنگ کرنے والے ملزم کو جب گرفتار کیا گیا تو اس نے کہا تھا کہ چاہتا ہوں کہ تمام یہودی مرجائیں۔
46 سالہ ملزم رابرٹ بوئرز پر 29 الزامات عائد کیے گئے ہیں، یہ امریکا کی تاریخ میں یہودیوں پر بدترین حملہ تھا۔
مزید پڑھیں : عبادت گاہ میں فائرنگ: گرفتار حملہ آور کا 'یہودیوں پر نسل کشی کا الزام'
حملہ آور اب تک ہسپتال میں زیرِ علاج ہے لیکن پیر ( 29 اکتوبر ) کو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
عبادت گاہ پر حملے میں ہلاک ہونے والے 11 افراد میں سے ایک شادی شدہ جوڑا اور ایک 97 سالہ خاتون بھی شامل تھیں جبکہ 4 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
حملے سے متعلق میئر بل پیدوٹو کا کہنا تھا کہ ’ یہ پٹس برگ کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا‘۔
حملے میں محفوظ رہنے والوں کے تاثرات
ہفتہ ( 27 اکتوبر) کو یہودی عبادت کے لیے جمع ہونے والے ایک گروپ کے تین رہنماؤں نے پٹس برگ میں واقع ٹری آف لائف سناگاگ (یہودی عبادت گاہ) میں ملاقات کرنا تھی۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق نیو لائٹ کے اراکین نے بیسمنٹ میں ملاقات کرنا تھی، ان میں 81 سالہ رکن کارل سمون بھی شامل تھے جنہوں نے حادثے میں بچ جانے والے افراد سے خطاب کیا تھا۔
حملے کے وقت گروپ کے ارکان رچرڈ گوٹ فرائیڈ اور ڈینیئل اسٹین کچن میں چُھپ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی حملہ آور کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
مذہبی گروپ کے نائب صدر اسٹیفن کوہن نے اخبار کو بتایا کہ ’ وہاں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ربی جوناتھن پیرل مین نے دیگر دو افراد کو اسٹوریج روم تک پہنچایا تھا لیکن 88 سالہ میلون میکس نے بعد میں دروازہ کھولا تھا اور ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : امریکا: یہودی عبادت گاہ میں فائرنگ، 11 افراد ہلاک
اسٹفین کوہن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’ ہر کوئی جم گیا تھا لیکن ربی پیرل مین ‘ نے ماضی میں شوٹنگ مشقوں میں حصہ لیا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے لوگ بچ گئے تھے۔
عبادت گاہ میں موجود 90 سالہ شخص جوزف چارنے نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہوں نے دیکھا تھا کہ ایک شخص دروازے پر آیا جس کے بعد فائرنگ کی آواز سنائی دی۔
انہوں نے کہا کہ ’ میں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو وہاں لاشیں موجود تھیں ‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اور دیگر دو افراد اوپری منزل پر موجود اسٹوریج روم میں اس وقت تک چھپے رہے جب خطرہ ٹل چکا تھا۔
ہلاک شدگان میں 75 سالہ جوئس فائن برگ، 97 سالہ روز میلنگر، 66 سالہ جیری رابینوٹز، 59 سالہ سیسل روزینتھل اور ان کے بھائی 54 سالہ ڈیوڈ، شادی شدہ جوڑا برنیس سیمون، 86 سالہ سیلوان سیمون اور 69 سالہ ارونگ ینگر شامل تھے۔
جیری رابینوٹز کے مریض بین شمیت نے کہا کہ فیملی ڈاکٹر بہت ’ مہربان ‘ تھے۔
دوسری جانب سیسل اور ڈیوڈ روزینتھل کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ ’ مہربان ،اچھے لوگ‘ تھے جو ہر ایک کی عزت کرتے تھے‘۔
حملے میں زخمی ہونے والے ایک آفیسر کو ہفتہ (27 اکتوبر) کو ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا، ایک کو اتوار کو چھٹی ملنی تھی جبکہ دیگر دو افسران کو مزید علاج کی ضرورت تھی۔