• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اسد عمر اداروں کی عالمی ماہرین کو مطمئن کرنے میں ناکامی پر برہم

شائع October 28, 2018
—فائل/فوٹو:ڈان نیوز
—فائل/فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے حوالے سے کی گئی کاوشوں پرعالمی ماہرین کے سوالات کے تسلی بخش جواب دینے اور خوش اسلوبی سے نمٹنے میں اسٹیک ہولڈرز کی بظاہرناکامی پر ناراضی ظاہر کر دی۔

وزیرخزانہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) اور انسداد نارکوٹکس فورس سمیت متعلقہ عہدیدراوں کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) کی تجاویز کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے معمولی جواب پر برہم ہیں۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘عالمی ماہرین کی تجاویز پر پیش رفت کے حوالے سے اب سے میں دوہفتے میں ہر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقات کروں گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ممکنہ شمولیت سے متعلق سنجیدہ معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی سستی برداشت نہیں کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:ایف اے ٹی ایف کا وفد پاکستان کی کارکردگی سے اب تک متاثر نہ ہوسکا

اسد عمر نے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈائریکٹر جنرل کو ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان اور اے پی جی کے سفارشات پر اب تک عمل درآمد کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں شریک اداروں کے نمائندوں پر تنقید کی۔

ایف اے ٹی ایف اور اے پی جی دونوں نے پاکستان کو 2019 میں گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اقدامات تجویز کیے ہیں، اے پی جی نے حال ہی میں پاکستان کا آن سائٹ جائزہ مکمل کرکے اہم نتائج پر مشتمل رپورٹ دی تھی۔

ذرائع کے مطابق پاکستان 31 اکتوبر کو اے پی جی کے نتائج پر اپنا جواب جمع کرادے گا اور اگلی تعمیلی رپورٹ نومبر میں جمع کرادی جائے گی۔

اجلاس میں آگاہ کیا گیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف اور اے پی جی مختلف اسٹیک ہولڈر کےعالمی اداروں کی تجاویز سے متعلق جوابات پر مطمئن نہیں تھے تاہم وفاقی وزیر نے متعلقہ اداروں کے نمائندوں کو واضح طور پر کہا کہ مناسب طریقے سے جواب دیا جائے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اس طریقے سے جواب دینا ہے جو ان کے لیے قابل قبول ہو’ تاہم حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم انہیں مطمئن کرنے میں ناکام کیوں ہوئے، ہم گرے لسٹ سے باہر آنا چاہتے تھے’۔

یہ بھی پڑھیں:ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستانی اقدامات غیر تسلی بخش قرار

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس جانب پہلے ہی کافی کام کیا ہے اور ‘ہمیں باقی ڈیڈلائن سے قبل مکمل کرنا ہے’۔

ذرائع کے مطابق اسد عمر نے کہا کہ پاکستان مکمل طور پر عمل پیرا نہیں تھا یہ باقی تجاویز پرعمل درآمد کے لیے جاری رہنے والا عمل ہے۔

ذرائع نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں انسداد منی لانڈرنگ قوانین (اے ایم ایل) اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے (سی ایف ٹی) کے مختلف قوانین پر پاکستان کی جانب سے زیادہ ترعمل درآمد کو نمایاں کیا گیا تھا لیکن زیادہ معاملات عمل درآمد کے حوالے سے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر قوانین موجود ہیں لیکن ان قوانین پر موثر عمل درآمد سے متعلق انتظامات کے مسائل ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان کے 'ایف اے ٹی ایف' گرے لسٹ سے اخراج کیلئے اقدامات پر رپورٹ تیار

اے پی جی نے اپنے جائزے میں رواں سال اگست میں پاکستان کے اے ایم ایل اور سی ایف ٹی قوانین اور طریقہ کار میں خامیوں کی نشاندہی کی تھی اور تجاویز کے ساتھ رپورٹ پاکستان کو بھیجو دی تھی۔

پاکستان نے جواب میں تجاویز پر عمل درآمد کے حوالے سے تفصیلات فراہم کردیا تھا۔

اے پی جی کی جانب سے 5 اکتوبر کو ایک اور تیکنیکی رپورٹ پاکستان کو موصول ہوئی تھی جس میں اے ایم ایل اور سی ایف ٹی اقدامات میں خامیوں کو نمایاں کیا گیا تھا جس پر عمل کرنا پاکستان کو ضروری تھا۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان اور اے پی جی تجاویز پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کی اور انہوں نے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان میں وقت پر عمل درآمد کو قینی بنانے کے لیے اداروں کی سطح پرہم آہنگی بڑھانے پر زور دیا۔

وزیر خزانہ نے اے پی جی کے اگلے سوالوں کے مکمل جوابات دینے کی خواہش کا اظہار کیا اور دیے گئے متعقلہ تمام اسٹیک ہولڈر کو اپنے کاموں کو مقرر وقت میں مکمل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک موثر نگرانی کا نظام وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اسد عمر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی کہ وہ اندرونی ایکشن پلان بنائیں جس کی ہفتہ وار نگرانی کی جائے۔


یہ خبر 28 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024