• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

بلدیاتی انتخابات میں بلّے کے لیے مشکل وکٹ تیار ہوگئی؟

شائع October 27, 2018

عام انتخابات کو ہوئے 3 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں 10 ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی سب بڑی جماعت بن کر ابھری اور مرکز کے ساتھ ساتھ 3 صوبوں میں حکومتیں بنائیں۔

خیبر پختونخوا کے عوام نے نہ صرف پی ٹی آئی کو ماضی کے روایت کے برعکس برسرِ اقتدار جماعت کو دوبار اقتدار سونپ دیا بلکہ پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت بھی دی، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے گی؟

اگر عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور حاصل کردہ نشستوں اور ووٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا جواب ہے کہ ہاں، پی ٹی آئی باآسانی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

لیکن ضمنی انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج نے اس ’ہاں‘ کو تھوڑا مشکوک بنادیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے اتحاد کی وجہ سے پی ٹی آئی جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد بلدیاتی انتخابات میں بھی برقرار رہتا ہے تو پی ٹی آئی کے لیے بلدیاتی انتخابات میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

چنانچہ ضروری ہے کہ حالیہ عام انتخابات کے نتائج کا نہ صرف بحیثیتِ مجموعی جائزہ لیا جائے، بلکہ اضلاع کی سطح پر حکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے حاصل کردہ نشستوں اور ووٹوں کاجائزہ لیا جائے، جس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے باآسانی ایک رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

عام اتنخابات کے نتائج

خیبر پختونخوا میں 26 اضلاع ہیں اور وہاں 99 صوبائی نشستوں پر براہِ راست اننخابات ہوتے ہیں۔ عام انتخابات میں 2 نشستوں PK-78 اور PK-99 پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ PK-24 پر خواتین کی 10 فیصد سے کم ووٹننگ کی وجہ سے الیکشن کمشن نے نتائج روک دیے۔

اس کے علاوہ مجموعی طور پر 96 حلقوں میں سے پی ٹی آئی نے 66، متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) نے 10، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے 6، آزاد امیدواروں نے 5 ، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 5 اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

مجموعی طورپر حاصل کردہ ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی 21,33,112 ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر، ایم ایم اے 11,28,026 کے ساتھ دوسرے نمبر پر، آزاد 9,32,964 کے ساتھ تیسرے نمبر پر، عوامی نیشنل پارٹی 8,12,702 کے ساتھ چوتھے نمبر پر، مسلم لیگ (ن) 6,55,022 کے ساتھ پانچویں نمبر پر، پی پی پی 6,04,816 کے ساتھ چھٹے نمبر پر، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) 1,26,683 ووٹوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) 78,000 ووٹوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی (پی آر پی) 53,472 ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔ باقی 3 جماعتیں ایسی ہیں جن کا ووٹ 16 ہزار سے بھی کم ہیں اور اس کے بعد کئی جماعتیں ایسی ہیں جن کے ووٹ 10 ہزار سے بھی کم ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں

اس وقت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں ان جماعتوں کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس کے برعکس اپوزیشن جماعتیں ایم ایم اے، اے این پی، مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور کیو ڈبلیو پی کا خیبر پختونخوا میں مضبوط ووٹ بینک ہے اور ان جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی مجموعی تعداد 33,27,249 ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حاصل کردہ ووٹ 21,33,112 ہیں۔

لیکن خیبر پختونخوا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے آزاد امیدوار ہیں جو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ آزاد امیدواروں میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے حمایت یافتہ امیدوار شامل ہیں۔

صوبے کے جن جن حلقوں میں جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان ٹکٹوں کے تقسیم پر اختلافات تھے وہاں ایم ایم اے کے کتاب کے نشان کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں کھڑے ہوگئے تھے، اس لیے آزاد امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے حمایت یافتہ امیدواران جو آزاد حیثیت سے الیکشن میں کھڑے تھے، ان کے ووٹ بھی شامل ہیں۔

لیکن اس کے باوجود اگر پی ٹی آئی کے ساتھ آزاد اراکین کے حاصل کردہ ووٹ ملا دیے جائیں تو پھر بھی وہ اپوزیشن جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں سے کم ہے۔ تحریکِ انصاف اور آزاد امیدواروں کے مجموعی ووٹ 30,66,076 بنتے ہیں جبکہ اپوزیشن کے ووٹوں کی تعداد 33,272,49 ہے۔

جیت کے ووٹوں کا تناسب

96 حلقوں میں سے 10 حلقے ایسے ہیں جہاں جیتنے والوں کے ووٹوں کی تعداد ہارنے والوں سے ایک ہزار سے بھی کم ہے، جس میں پی ٹی آئی نے 5، ایم ایم اے نے 2، اے این پی نے 2 اور مسلم لیگ (ن) نے ایک نشست حاصل کی ہے۔

ایک ہزار سے لے کر 5 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی گئی نشستوں کی تعداد 32 ہے جس میں پی ٹی آئی نے 16، ایم ایم اے نے 5، آزاد امیدواروں نے 4، جبکہ مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے 2، 2 نشستیں جیتی ہیں۔

5 ہزار سے 10 ہزار تک کے درمیان کی لیڈ سے جیتی گئی نشستوں کی مجموعی تعداد 29 ہے جس میں پی ٹی آئی نے 19، مسلم لیگ (ن) نے 2، اے این پی نے 3، آزاد امیدواروں نے 3 جبکہ ایم ایم اے کے 2 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔

10 ہزار یا اس سے زائد ووٹوں سے جیتی گئی نشستوں کی مجموعی تعداد 25 ہے جس میں سے صرف ایک نشست ایم ایم اے نے جیتی ہے جبکہ باقی تمام 24 نشستیں پی ٹی آئی نے جیتی ہیں۔

ضمنی انتخابات

پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد مجموعی طور پر خیبر پختونخوا کے 11 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ PK-24 شانگلہ پر خواتین کی ووٹنگ 10 فیصد سے کم ہونے کی وجہ سے نتائج الیکشن کمیشن نے روک دیے تھے۔ وہ حلقہ تحریک انصاف نے جیتا تھا۔ عام انتخابات کے فوراً بعد اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں بھی تحریکِ انصاف کے امیدوار نے ہی کامیابی حاصل کی۔

باقی 10 حلقوں میں سے دو حلقوں PK-78 اور PK-99 پر عام انتخابات کے دوران انتخابات ملتوی کردئے گئے تھے۔ PK-53 پر اے این پی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ باقی7 حلقوں میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی تھی۔

ضمنی انتخابات میں جہاں پی ٹی آئی عام انتخابات میں اے این پی کی جیتی ہوئی نشست PK-53 مردان ان سے جیتنے میں کامیاب ہوئی وہیں حکومتی جماعت مشترکہ اپوزیشن کے امیدواروں کے سامنے عام انتخابات میں جیتی ہوئی 3 نشستیں PK-3 اور PK-7 سوات اور PK-71 پشاور ہار گئی، جبکہ ایک نشست پشاور PK-78 بھی ہار گئی جس پر عام انتخابات میں پولنگ ملتوی کردی گئی تھی۔

کیا اپوزیشن کی یہ کامیابی بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے موجودہ اسٹرکچر پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس کے بعد ضلعی سطح پر پارٹی پوزیشن کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کا موجودہ اسٹرکچر

سب سے پہلے دیہی علاقوں میں ویلج کونسل ہوتی ہے جس کے چیئرمین اور نائب چیئرمین غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یونین کونسل ہوتی ہے جس میں ضلعی کونسلر اور تحصیل کونسلر جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور عوام ان کو منتخب کرتے ہیں۔ ضلع بھر سے منتخب ضلع کونسلر ناظم اعلیٰ اور نائب ناظم کو منتخب کرتے ہیں جبکہ تحصیل میں منتخب ہونے والے تمام تحصیل کونسلرز تحصیل ناظم اور نائب ناظم کو منتخب کرتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات میں ضلعی ناظم، نائب ناظم، تحصیل ناظم، تحصیل نائب ناظم، یونین کونسل کی سطح پر ضلعی کونسلر، تحصیل کونسلر اور اسی طرح ویلیج کونسل کی سطح پر چیئرمین ویلیج کونسل اور نائب چیئرمین ویلیج کونسل جیسی کئی نشستیں موجود ہوتی ہیں جس میں ہر جماعت کے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں دی جاسکتی ہیں، اس لیے اتحاد کے لیے بلدیاتی انتخابات میں عام انتخابات کے مقابلے میں ماحول زیادہ سازگار ہوتا ہے۔

ضلعی سطح پر پی ٹی آئی اور اپوزیشن اتحاد کی مجموعی پوزیشن

8 ایسے اضلاع ہیں جہاں اپوزیشن کے ووٹوں کی تعداد تحریکِ انصاف کے مقابلے میں دُگنی ہے۔ ان میں چترال، اپر دیر، لوئر دیر، بونیر، مانسہرہ، تورغر، چارسدہ اور ٹانک کے اضلاع شامل ہیں۔

وہ اضلاع جہاں اپوزیشن کی برتری 50 ہزار ووٹوں سے زائد بنتی ہے ان کی تعداد 4 ہے جس میں سوات، صوابی، مردان اور پشاور شامل ہیں۔ وہ اضلاع جہاں اپوزیشن جماعتوں کی برتری 50 ہزار ووٹوں سے کم ہے اس میں مالاکنڈ، شانگلہ، کوہستان، نوشہرہ، ہنگو، کرک، بنوں، لکی مروت اور ڈیرہ اسمٰعیل خان شامل ہیں۔

ان اعداد وشمار کے مطابق پی ٹی آئی کو محض 4 اضلاع میں برتری حاصل ہے اور وہ بھی 50 ہزار سے کم ووٹوں کی تعداد سے۔ ان اضلاع میں بٹگرام، ایبٹ آباد، ہری پور اور کوہاٹ شامل ہیں۔ وہ اضلاع جہاں آزاد امیدواروں کو اکثریتی ووٹ حاصل رہا ان میں کوہستان لوئر اور کولئی پلاس کوہستان شامل ہیں۔

ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کو چند نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ باقی نشستیں اپوزیشن اپنے اتحاد کے باوجود بھی ہاری ہے، بلکہ مردان میں اے این پی اکیلی جیتی ہوئی نشست بھی اتحاد کے باوجود برقرار نہ رکھ سکی۔ لیکن پھر بھی پی ٹی آئی کو ان اعداد و شمار کو ذہن میں رکھنا ہوگا اور عوام سے عام انتخابات میں جو وعدے کیے ہیں، ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، بصورتِ دیگر ان کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

امیر محمد خان

امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024