دماغی تطہیر کے ذریعے ذہنی غلامی
اوپن یونیورسٹی یوکے میں بایولوجی کے پروفیسر اسٹیوین روز کا ایک مضمون ''ہم اُس دور سے متواتر قریب ہوتے جارہے ہیں، جب ذہنوں کو کنٹرول کیا جاسکے گا''..... "We are Moving Ever Closer to the Era of Mind Control" گارجین نے 5فروری 2006 ء کے شمارے میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون کے مطابق یورپ اور امریکہ میں اس انوکھی ریسرچ پر خطیر رقم خرچ کی جارہی ہےاور اُمید کی جارہی ہے کہ یہ تحقیق زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بن سکے گی۔
حساس آلات کے ذریعے یہ دیکھا جارہا ہے کہ زندگی کے مختلف معاملات کے دوران دماغ کے کن حصّوں میں سرگرمی پائی جاتی ہے۔ مارکیٹنگ کے شعبے سے لے کر حساس فوجی شعبوں تک کے لیے اس ریسرچ سے استفادہ کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اسی ریسرچ کے نتیجہ میں نیورومارکٹینگ اور نیوروکنزیومر ازم کی اصطلاحیں بھی سامنے آگئی ہیں۔ اسٹیوین روز لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ سب کچھ بےضرر معلوم ہوتا ہے لیکن اُن کا خیال ہے کہ برین اسکیننگ ٹیکنالوجی کے حوالے سے فوجی اداروں کی دلچسپی بہت سے خدشات پیدا کررہی ہے۔
بعض ترقی یافتہ ممالک کے ریاستی ادارے اس جستجو میں ہیں کہ کیا برین امیجنگ کے ذریعے یہ پیشین گوئی کی جاسکے گی کہ مستقبل میں فرد کا روےّہ کیا ہوگا؟ خصوصاً ایسے ریاستی ادارے جو جاسوسی یا فوج سے متعلق ہیں۔ ان تمام کوششوں کا مشترکہ مقصد یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایسی تیکنیکس دریافت کی جائیں جن کے ذریعے فرد کے ذہن کو کنٹرول کیا جاسکے۔ سی آئی اے ایک ایسے منصوبہ پر کام کررہی ہے جن کے ذریعے دشمن فوج کے افسران سے براہ ِراست معلومات حاصل کی جاسکیں گی۔
اسٹوین روز کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ریسرچ کا آغاز تو 1960ء میں ہی ہوگیا تھا۔ اب تک ذہن کو کنٹرول کرنے اور دماغی تطہیر کے موضوع پر خاصا کام ہوچکا ہے۔ ایسے بہت سے ضوابط، طریقہ کار اور تیکنیکس وضع کرلی گئی ہیں جن کے ذریعے اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق کسی خطّے کو جنگی میدان میں تبدیل کیا جاسکے اور دشمن سے مقابلے کے لیے اپنی افواج بھیجنے کے بجائے پروپیگنڈہ کے ذریعے ایسے لوگ تیار کیے جائیں، جو بخوشی آگ اور خون کے میدان میں کود پڑیں، چاہے اُن کا اس تمام صورتحال سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ یہاں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کی مثال کے بجائے ”سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی استعمال نہ ہو“ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
دماغی تطہیر یا برین واشنگ کے پروگرام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ فرد کی نفسیات کو مسلسل کشمکش اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا رکھا جائے، یہاں تک کہ وہ کرب کے اظہار کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوجائے، یا پھر مضطرب اور پریشان کن فضا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرلے۔ لیکن جب نفسیاتی کشمکش کا ماحول مسلسل قائم اور اضطرابی کیفیت فرد یا افراد پر ہرلمحہ مسلّط رہے تو ایسی صورت میں انفرادی یا اجتماعی سطح پر ماحول کے ساتھ مثبت طور پر ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور ایسے روےّوں کا اظہار ہونے لگتا ہے جو اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے لئے انتہائی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ بعض جگہ اس حکمتِ عملی کا اس منظم انداز میں نفاذ کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ حیوانی سطح سے بھی نیچے گر جاتے ہیں اور اخلاقی قدریں بے دردی سے پامال کردی جاتی ہیں۔ انسانی نفسیات کو کشمکش اور اضطراب میں مبتلا کرنے کے لئے ایسی فضا تشکیل دی جاتی ہے جس میں باربار ایک ہی طرح کے مناظر فرد یا افراد کے سامنے لائے جاتے ہیں اور بڑی باریک بینی کے ساتھ ان مناظر کو لوگوں کے افکار پر حاوی کردیا جاتا ہے۔
دماغی تطہیر یا برین واشنگ کے ایک امریکی ماہرفریڈرک ایمرے نے ٹیلی ویژن کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹی وی پر پیش کیا جانے والا کوئی بھی ایک منظر کئی تصویری ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک تصویر تیس سیکنڈ تک ہماری نگاہوں کے سامنے رہتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے مناظر آنکھوں اور دماغ کو غیرمعمولی حد تک متاثر کرتے ہیں۔ دماغ جس کا کام خبروں و تصویروں کو مسلسل دیکھنا اور نتائج نکالنا ہے، عموماً پوری طرح سے اپنا کام انجام دینے سے قاصر رہتا ہے، بعض حالات میں تو تیزی سے بدلتے ہوئے مناظر ومشاہدات کا کسی صورت درست اور غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ دماغ کے خلیے تیزی سے بدلتے مناظر کو کسی تجزیہ اور کسی نتیجہ تک پہنچے بغیر ہی جوں کا توں قبول کرلیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کے اکثر ناظرین ہپناٹائز ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ٹی وی سے نکلنے والی دماغ کے نظام کو متاثر کرتی ہیں، اکثر لوگوں خصوصاً بچوں کا دماغ ٹی وی کی تابکاری برداشت نہیں کرپاتا اور جب ایک بار دماغ ماؤف ہوجاتا ہے تو پھر ناظرین کی نگاہ گویا ٹیلیویژن اسکرین سے چپک کر رہ جاتی ہے۔ ٹی وی دیکھتے وقت دماغ کے وہ خلیات جو تابکارشعاعوں سے متاثر ہوتے ہیں، غیرمعمولی تیزی سے اپنا کام کرنے لگتے ہیں، جس سے دماغ کے مالیکیولر توازن میں نمایاں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ برین واشنگ حکمتِ عملی کے تحت جو پروگرام تیار کیے جاتے ہیں وہ بھی بہت سے انسانوں کے اعصاب کو بُری طرح مضمحل کردیتے ہیں۔
فریڈرک کا خیال ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ذہنی پسماندگی کی سطح پر لایا جاسکتا ہے یا بالغ شعور اور مہذب انسانوں کو نوعمر بچوں کی طرح سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے دماغی تطہیر کے موضوع پر سامراج مخالف معروف امریکی مفکر نوم چومسکی نے اپنے ساتھی ایڈورڈ ایسہرمن کی مدد سے انکشافات سے بھرپور ایک کتاب Manufacturing Consentتحریر کی ہے، اس کتاب کو بیسٹ سیلر کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بین الاقوامی میڈیا کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ماضی میں عام لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تشدّد کی راہ اختیار کی جاتی تھی اور انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کرکے اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کیا جاتا تھا، لیکن جدید دور میں یہ طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے، اب جسمانی تشدّد کے بجائے عدمِتشدّد پر مبنی نہایت آسان طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں۔
دراصل آج میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈہ سے یہ کام لیا جارہا ہے اور اس شعبے پر ہرقسم کے وسائل نہایت فیاضی کے ساتھ خرچ کیے جارہے ہیں۔عام لوگوں کے ذہنوں میں مخصوص تصورات اور تعصبات اس چالاکی کے ساتھ جاگزیں کردیئے جاتے ہیں کہ اکثر اُنہیں مرتے دم تک علم نہیں ہوتا کہ وہ سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے اُن کے آلۂ کار بنتے رہے ہیں۔ دماغی تطہیر کے بعض پروگرامز پر تو برسوں غوروخوص کیا جاتا ہے، جن خطوں میں ان پروگراموں کا نفاذ مقصود ہوتا ہے، وہاں کی سماجی، معاشرتی اور ثقافتی قدروں اور ان خطوں کے عوام کے مجموعی مزاج پر برسوں ریسرچ کرنے والے اسکالرز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پھر ان پروگرامز کو آخری شکل دے کر ان پر عمل درآمد کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مطلوبہ اہداف پورے نہ ہوں یا ان میں تاخیر ہورہی ہو تو ان پروگرامز میں تبدیلی بھی کردی جاتی ہے۔
یہ خیال کہ ہم اپنی رائے بذاتِ خود قائم کرتے ہیں، آج کے دور میں دُرست نہیں رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم یہ فرض کر کے اپنی رائے قائم کرتے ہیں کہ رائے عامہ ہماری رائے کی تائید کرے گی۔ اکثر خبریں اور اطلاعات بنیادی طور پر معلومات میں اضافے اور باخبر رکھنے کے لیے نہیں فراہم کی جاتی ہیں بلکہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں ان سے سرمایہ داروں کے مفاد کی تکمیل ہورہی ہوتی ہے۔ نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ پروپیگنڈہ کے اس مربوط اور منظم سسٹم کے تحت عام لوگوں تک پہنچنے والی تمام اطلاعات پانچ فلٹرز سے گزرنے پر مجبور ہیں۔
اس سلسلے میں پہلا فلٹر اونر شپ ہے، عالمی میڈیا کے بیشتر ذرائع عالمی تجارتی اداروں کی براہِ راست یا بالواسطہ ملکیت ہیں، جو اپنے مخصوص مفادات کا ہرقیمت پر تحفظ کرتے ہیں۔
دوسرا فلٹر ریونیو کا ہے، میڈیا اپنا بیش تر ریونیو اشتہارات کے ذریعے حاصل کرتا ہے، چنانچہ ایسی کوئی خبر، اطلاع یا نکتہ ٔنظر جس سے اشتہارات دینے والی بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے کاروبار میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہو، عام افراد تک نہیں پہنچ پاتی، چاہے اس میں مفاد عامّہ کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو۔
تیسرا فلٹر یہ ہے کہ میڈیا کی خبروں کا ایک بڑا ذریعہ عالمی طاقتوں کے سرکاری ادارے ہیں جو شدید تعصبات اور پسندوناپسند کے اپنے اپنے پیمانے رکھتے ہیں۔
چوتھا فلٹر نوم چومسکی کے خیال میں پریشرگروپس کا ہے جو اپنے مفادات سے متصادم موقف کو میڈیا تک پہنچنے سے روکتے ہیں، یہاں تک کہ ان سے بڑا پریشرگروپ میڈیا کو وہ موقف پیش کرنے پر مجبور کردے۔
پانچواں فلٹر صحافتی ضوابط ہوتے ہیں، بعض حالات میں ان ضابطوں کی زد میں آکر بھی بہت سے حقائق دھندلاجاتے ہیں یا منظر عام پر نہیں آپاتے۔ اس تمام صورتحال میں جو کچھ بھی عام انسانوں کے پاس پہنچتا ہے اُسے کسی بھی طرح ''سازش'' ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یا پھر کسی خبر یا واقعہ کو اس طرح پیش کیاجاتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اس میں سازش کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ عالمی سرمایہ دار اس صورتحال کا فائدہ اُٹھا کر نہایت چالاکی کے ساتھ اپنی مرضی و منشاء اور ہم نوائی کی فضا تیار کرلیتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جگہ جان بوجھ کر عالمی سرمایہ داروں کے مفادات کی مخالفت کا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کو بتدریج آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ عالمی سرمایہ داروں یا اُن کے مفادات کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ دلچسپ یا افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ظاہری صورتحال کے پسِ پردہ فائدہ بھی وہی اُٹھاتے ہیں، جن کی مخالفت کا ماحول گرم ہوتا ہے۔
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ دماغی تطہیر کی حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت پروپیگنڈہ کی قائم کردہ حدود سے باہر نکل کر سوچنے کی استعداد ہی کھو بیٹھتی ہے۔
اس صورتحال میں انہیں حقائق کا ادراک کرنے کے لئے دانشوروں کی ضرورت پڑتی ہے اور دانشوروں کی فراہمی کا کام بھی سرمایہ پرستوں کا آلۂ کار میڈیا ہی انجام دیتا ہے۔ یہاں پہنچ کر نوم چومسکی ایک دلچسپ نکتہ نظر پیش کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ مغرب میں بنیادپرستی Fundamentalism کا بہت شور وغوغا ہے۔ اس سلسلے میں مغربی میڈیا پر دانشور قبیل کے جن افراد کو پیش کیا جاتا ہے، نوم چومسکی کا خیال ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اُنہیں سیکیولر پادری کہہ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو درحقیقت افکار مسلط کرنے کی تجارت کرتا ہے۔
یہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طبقے کے لئے تصورات اور نظریات تشکیل دیتے ہیں۔ یہ خود پسند لوگ ستائشِ باہمی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایسے میں اگر کوئی مغربی مفکر ہی مغرب میں مروّجہ روایتی نظریات سے ہٹ کر اپنا موقف پیش کرنا چاہے تو میڈیا کے نمائندے اُس کی گفتگو کے درمیان ایسے سوالات اُٹھاتے ہیں کہ جاری بحث روایتی خیالات اور تصورات تک ہی محدود رہتی ہے اور وہی پہلو اُجاگر رہتا ہے جسے وہ اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں