• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی عرب نے تاریخ کا بدترین رد عمل دیا، امریکا

شائع October 24, 2018
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی عرب کے ردعمل کو تاریخ کا ’بدترین ردعمل‘ قرار دے دیا۔

ساتھ ہی امریکا کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوثت سعودیوں کے ویزے منسوخ کرسکتا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ بیان ترک صدر رجب طیب اردوان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

تاہم ترکی کے اس بیان پر سعودی رہنماؤں کی جانب سے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی گئی اور تمام ذمہ داری نچلی سطح پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں: ’خاشقجی کے لباس میں ایک شخص سفارتخانے سے باہر آیا تھا‘

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا اور یہ نچلی سطح پر کیا گیا۔

اس سارے معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کی اور کہا کہ سعودیوں نے اپنے ناقد 59 سالہ صحافی کو قتل کرنے پر برا اثر پڑا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے اس معاملے کو غلط طریقے سے لیا اور اسے چھپا کر دفاع کرنا تاریخ کا بدترین دفاع تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچھا تھا اور جب انہوں نے سوچنا شروع کیا تو سب کچھ خراب ہوچکا تھا۔

دوسری جانب امریکی قانون سازوں کی جانب سے سخت اقدامات کے مطالبے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے 21 ایسے سعودیوں کی نشاندہی کی ہے جن کے ویزا آیا منسوخ ہوجائیں گے یا وہ مستقبل میں ویزوں کے لیے نااہل ہوں گے۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا کی جانب سے اس معاملے پر جرمانے آخری آپشن نہیں ہوں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ تشدد کے ذریعے جمال خاشقجی کو خاموش کرنے کے اس اقدام کو امریکا کبھی برداشت نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی مشتبہ افراد انٹیلی جنس سروسز، شاہی عدالتوں، وزارت خارجہ اور دیگر سعودی وزارتوں سے آئے تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردوان نے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شواہد سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک صحافی کی لاش نہیں ملی اور سعودی حکام ان کی لاش کے بارے میں بتائیں۔

تاہم بعد ازاں غیرملکی خبررساں ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے مل گئے ہیں اور انہیں سعودی قونصل جنرل کی رہائش گاہ کے گارڈن میں دفن کیا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بتایا تھا کہ ان کے دو ذرائع نے جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے ملنے کی تصدیق کی ہے اور یہ معلوم ہوا ہے کہ خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے بعد ان کا چہرہ بگاڑ دیا گیا۔

ایک ذرائع نے بتایا تھا کہ مقتول صحافی کی لاش کے ٹکڑے سعودی قونصل خانے سے 500 میٹر دوری پر رہائش پذیر سعودی قونصل جنرل کے گارڈن سے ملے۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024