وہ پاکستانی ہارر فلمیں جنہیں فلم بینوں نے بہت پسند کیا
3 دوستوں نے 1999ء میں کم بجٹ کی حامل ہارر فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ کہانی امریکا کے ایک بلئیر فاریسٹ میں مبیّنہ چڑیل پر بنائی جانے والی ڈاکومینٹری نما تھی۔ جس میں 3 دوست جنگل میں چڑیل کی موجودگی کی تحقیق کرنے جاتے ہیں۔ فلم بنا کیمرہ مین کے شوٹ کی گئی۔ کیمرہ ایک کردار کے کندھے پر ہے تو اس کے پوائنٹ آف ویو سے باقی 2 کردار اور جب دوسرے کردار کے کندھے پر کیمرہ ہے تو اس کے ویو سے پہلا اور تیسرا کردار دکھائے جاتے تھے۔
فلم پر کل ملا کر 80 ہزار ڈالر لاگت آئی۔ فلم ریلیز ہوئی اور اس نے دنیا بھر میں 248 ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کیا۔ اس فلم نے فاؤنڈ فٹیج (found footage) ہارر سنیما کی بنیاد رکھی۔ فلم کا نام بلئیر وچ پروجیکٹ (Blair witch project) تھا۔ اس فلم کے بعد اس طرز کی فلموں کی گزشتہ 19 برس میں بھرمار ہوچکی ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی فلمیں بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔
ہمارے فلم بینوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ پاکستانی فلم سازوں کو ہارر فلمیں بنانا بالکل نہیں آتیں۔ بولی وڈ والے ہارر فلمیں بنانا سیکھ رہے ہیں اور ہولی وڈ سے اچھی ہارر فلمیں تو کوئی بنا ہی نہیں سکتا جو کہ قطعی درست نہیں ہے۔ ہارر سنیما میں اگر کوئی آگے ہے تو وہ جاپانی اور کورین سنیما ہیں جن کے پائے کی فلمیں ہولی وڈ بھی نہیں بناسکتا۔ ہالی وڈ کی اکثریتی فلمیں کورین اور جاپانی ہارر فلموں سے ماخوذ یا ان کا ہوبہو ری میک ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ہارر سنیما کا معاملہ الگ ہے۔ یہاں کے فلم بین ہارر سنیما کو پسند بھی کرتے ہیں اور ہارر فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا ایسی فلموں کو لفٹ کرانا گوارا نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک اچھی فلم وہی ہے جس میں 3 لڑکیاں، 3 لڑکے، ذومعنی جملے، آئیٹم نمبر وغیرہ ہو۔ ذیل میں پاکستان کی چند اچھی ہارر فلموں کا ذکر ہے، جنہوں نے پاکستانی فلم بینوں کو متاثر کیا۔
سرکٹا انسان
سرکٹا انسان کہنہ مشق ہدایت کار سعید رضوی کی 1991ء میں بنائی جانے والی سائنس فکشن ہارر فلم ہے جس میں فلم اسٹار بابرہ شریف اور غلام محی الدین نے مرکزی کردار ادا کیے۔ سعید رضوی صاحب کو فلم بنانے کے بعد 3 برس لگے اسے ریلیز کرنے میں اور یہ فلم 1994ء میں ریلیز ہوئی۔ ناقدین نے اسے مسترد کیا مگر فلم بینوں نے اس فلم کو سراہا۔ خاص کر اس فلم کے وژؤل ایفیکٹس جو سعید رضوی نے خود ڈیزائن کیے تھے، ناظرین کو بے حد پسند آئے۔
زندہ لاش
ہدایتکار خواجہ سرفراز کی 1967ء میں ریلیز ہونے والی فلم اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ فلم مشہور زمانہ فلم ’ڈریکولا‘ سے متاثر تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کی نمائش امریکا میں بھی کی گئی۔
ذبح خانہ
ذبح خانہ پاکستان کی پہلی فلم ہے جو ڈیجیٹل فارمیٹ میں بنائی گئی۔ اس سے قبل 35 ایم ایم پر فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ ذبح خانہ کو 30 دن کی قلیل مدت میں عکس بند کیا گیا۔ فلم ڈینمارک کے نیٹ فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی۔ پھر اس کی پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نمائش ہوئی۔ ہدایت کار عمر علی خان کی یہ بہترین فلم دیکھنے لائق ہے۔ اسے پاکستان کی اب تک کی واحد سلیشر ہارر فلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پڑھیے: لولی وڈ میں آف بیٹ فلموں کی گنجائش ہے یا نہیں؟
سیاہ
ہدایت کار اظفر جعفری کی 2013ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے پروڈٖیوسرز کے مطابق یہ پاکستان کی اب تک کی سب سے کامیاب ہارر فلم بتائی جاتی ہے۔ فلم نے 3 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔ فلم میں مرکزی کردار حریم فاروق نے ادا کیا۔ فلم یوٹیوب پر دستیاب ہے اور سائیکالوجیکل ہارر فلمیں پسند کرنے والوں کو یہ فلم بہت پسند آئے گی۔
پری
مشہور ڈرامہ لکھاری و ہدایت کار سید عاطف علی نے اس فلم سے لولی وڈ سنیما میں قدم رکھا۔ پری ایک خاندان کے ساتھ پیش آنے والے پُراسرار واقعات پر مبنی فلم ہے۔ فلم کی خاص بات اس کا اسکرپٹ، گیٹ اپ اور وی ایف ایکس ہیں، جس پر بہت محنت کی گئی ہے۔
سید عاطف علی نے محدود بجٹ اور وسائل کے باوجود اس مشکل فلم کو بنا کر پاکستانی فلم انڈسٹری کے بڑوں کو پیغام دیا ہے کہ اگر فلم میکر ان تھک محنت کا قائل ہو تو وہ مشکل اسکرپٹ کو بھی پردہ اسکرین پر ڈھال سکتا ہے۔ پری فروری 2018ء میں ریلیز ہوئی اور جب شان کی ارتھ ٹو اور رنگریزہ جیسی بڑے بجٹ کی فلمیں ہفتہ دو ہفتہ لگ کر اتر گئیں، پری 5 ہفتوں تک پاکستانی سنیما پر راج کرتی رہی۔
تبصرے (10) بند ہیں