شاہ سلمان، ولی عہد محمد کا جمال خاشقجی کے بیٹے سے رابطہ
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے استنبول میں قونصل خانے کے اندر قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے کو فون کرکے تعزیت کردی۔
خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر مبینہ طور پر قتل ہونے والے صحافی کے بیٹے صلاح کو سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے بھی فون کیا۔
سعودی خبر ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں نے صلاح سے ‘تعزیت کی اور دکھ کا اظہار کیا’۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے دو ہفتوں تک دباؤ کے بعد 20 اکتوبر کو اعتراف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے بعد مارا گیا تھا۔
تاہم گزشتہ روز سعودی عرب کے وزیر خاجہ عادل الزبیر نے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کا اعتراف کرنے کے بعد اسے ‘غلطی’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی قیادت کو لگتا تھا کہ جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو سفارت خانے سے چلے گئے تھے تاہم ترکی سے ملنے والی رپورٹس کے بعد سعودی حکام نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جمال خاشقجی سفارتی مشن کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘ہمیں اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں معلوم اور نہ ہی ہمیں لاش کے بارے میں پتہ ہے‘۔
مزید پڑھیں:جمال خاشقجی قتل: ’ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے‘
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے 18 افراد کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
ترکی میں سعودی صحافی کے قتل کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی صورت حال پیدا ہوئی تھی تاہم ترک صدر رجب طیب اردوان اور شاہ سلمان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس حوالے سے مزید تفتیش پر اتفاق کیا گیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر نے بھی سعودی عرب کا ایک دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر صحافی کے قتل کی خبر درست ہوئی تو اس کے سنگین اثرات ہوں گے تاہم سعودی اعتراف کے بعد ٹرمپ نے متضاد بیانات دیے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی اعتراف کے فوری بعد کہا تھا کہ میں سعودی وضاحت سے مطمئن ہوں تاہم گزشتہ روز ایک بیان میں انہوں اس کے برعکس موقف اپناتے ہوئے کہا کہ 'جب تک جواب نہیں آتا میں مطمئن نہیں ہوں، اس حوالے سے پابندیاں ممکن تھیں لیکن اسلحے کا معاہد ختم کرنا سعودی عرب سے زیادہ ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے بیان سے مطمئن نہیں، ٹرمپ
خیال رہے کہ جمال خاشقجی کی قونصل خانے کے اندر موت کے بعد ریاض میں ہونے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں آئی ایم ایف کے سربراہ سمیت کئی ممالک نے شرکت سے انکار کیا تھا۔
جمال خاشقجی کا معاملہ
خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی متعدد مرتبہ متنازع ایڈیٹوریل پالیسز پر برطرف ہوئے
ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔
ترک اخبار کا لرزہ خیز انکشاف
ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے دفتر کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔
ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیغے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔
بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔