نواز شریف، شاہد خاقان عباسی کے خلاف بغاوت کیس کی سماعت ملتوی
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور صحافی سرل المیڈا کے خلاف بغاوت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران نواز شریف کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ نے سابق وزرا اعظم اور صحافی کے خلاف بغاوت کیس کی سماعت کی جہاں عدالتی حکم پر شاہد خاقان عباسی اور سرل المیڈا پیش ہوئے۔
عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے موکل عدالت میں موجود ہیں جس پرانہوں نے جواب دیا کہ نواز شریف کی جانب سے جواب جمع کرا دیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ نواز شریف کیوں نہیں آئے ان کو آنا چاہیے تھا، نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ میاں نواز شریف ایک دفعہ پیش ہوں تاہم بنچ کا کہنا تھا کہ آپ کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دینی چاہیے تھی تاکہ ہم اس پر فیصلہ کرتے۔
مزید پڑھیں:بغاوت کیس: صحافی سرل المیڈا کے وارنٹ منسوخ،نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے فل بنچ کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اور سرل صاحب بھی آئے ہیں، اگر آپ حاضری سے معافی کی درخواست دینا چاہتے ہیں تو دیں ہم اسے قانون کے مطابق دیکھیں گے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے جواب میں تحریر کیا ہے کہ غداری جیسا سنگین الزام ہے اسی ناقابل تصور بھی ہے اور میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے عوام بھی غدار ہیں اور کیا مجھے وزیراعظم بنانے والے کروڑوں پاکستانیوں کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ملے، کیا غداری کا الزام کروڑوں پاکستانیوں پر نہیں۔
نواز شریف نے 9صفحات پر مشتمل اپنے جواب میں کہا ہے کہ میرا اس خاندان سے تعلق ہے جس نے پاکستان کے لیے ہجرت کی۔
سابق وزیراعظم نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ملک کے ادارے اور ایجنسیاں ناکام ہو چکی ہیں کہ جنہیں میری غداری کا علم نہیں تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ اس ملک کی مٹی کا ذرہ ذرہ جان سے زیادہ عزیز ہے، کیا ملک کو ناقابل تسخیر بنانے والا غدار ہوتا ہے، کیا ملک کو دہشت گردی سے نجات دینے والا غدار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے ایک آمر کے اقدام کو غیر آئینی قراردے کر غداری کا مقدمہ چلانے کا کہا، اس مقصد کے لیے خصوصی عدالت بنی کسی کو معلوم ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کہاں ہے اور کب سے وہ پاکستان کے نظام انصاف کا مذاق اڑا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ وقت آگیا ہے کہ کسی شہری کی پاکستانیت کی توہین کو بھی قابل سزا جرم قرار دیاجائے، میں نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی، دہشت گرد کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا مرحلہ میری وزارت عظمیٰ کے دور میں لڑا گیا تو کیا دنیا بھر کی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے مادر وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والا غدار ہوتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی اور سرل المیڈا کے وکلا کی جابن سے بھی عدالت میں جواب جمع کرا دیا گیا۔
وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ سرل المیڈا نے وہی چھاپ دیا جو نواز شریف نے کہا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو 12 نومبر کو درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
یہ بھی پڑھیں:سابق اور موجودہ وزراء اعظم کے خلاف بغاوت کی کارروائی کیلئے درخواست
واضح رہے کہ عدالت نے 8 اکتوبر کو بغاوت کیس میں ڈان کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا کے ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم د یتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور سرل المیڈا کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے رواں سال مئی میں ڈان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں پر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر مقدمے کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔
جس کے بعد سول سوسائٹی کی رکن آمنہ ملک نے لاہور ہائی کورٹ میں دونوں سابق وزرائے اعظم اور صحافی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کردیا تھا۔
درخواست گزار نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ نواز شریف کے خلاف بغاوت کے الزام کے تحت کارروائی کی جائے۔