اسد عمر کیلئے یاد رکھنے کا سبق کیونکہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں
اب جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جلد ہی شروع ہونے والے تو ہیں تو مرحلہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ایڈجسٹمنٹ کے جس راستے پر چل رہی ہے، ہر حکومت نے اس راستے پر چلنے کی بھاری سیاسی قیمت چکائی ہے۔
اس کی وجہ نہایت سادہ ہے: ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے حکومت کے لیے محصولات تیزی سے بڑھانا، اخراجات کم کرنا اور مالیاتی خسارہ ایک مخصوص حد تک لانا لازم ہوجاتا ہے۔ فی الوقت حکومت ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً 7 فیصد کے قریب ہے اور اس سال کا ہدف اسے جی ڈی پی کے 5.1 فیصد تک لانا ہے جس کا مطلب جی ڈی پی کی 1.9 فیصد تک ایڈجسٹمنٹ ہے۔
یہ بہت بڑا ہدف ہے اور اس کا بہت امکان ہے کہ آئی ایم ایف ہدف اس سے بھی اوپر لے جانا چاہے گا جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو سال کے اختتام تک مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 5 فیصد سے بھی کم پر لانا ہوگا۔ ماضی کے پروگرامز میں فنڈ نے ایک سادہ سا فارمولا اپنایا ہے جس کے مطابق مالیاتی خسارہ شرحِ نمو سے زیادہ نہیں ہوسکتا جو ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق اس سال 4.8 فیصد تک گر جائے گی۔
خسارے کو پُر کرنے کا مطلب مزید ٹیکسوں کا نفاذ اور اخراجات میں کمی ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی بجلی اور گیس کے نرخوں کی جانب اشارہ کرچکا ہے اور ایک مرتبہ جب پروگرام شروع ہوگیا تو درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹیز بھی بڑھانے کا کہا جائے گا۔
پڑھیے: ’آئی ایم ایف کے پاس جانا تباہ کن ہوگا‘
ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نہ ادا کرنے والے ایسے افراد جو واضح طور پر پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں، انہیں نوٹس جاری کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے مگر یہ صرف ایک معمول کا اقدام ہے، اس سے محصولات میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایف بی آر کے علاقائی دفاتر کی جانب سے بھیجے گئے یہ نوٹسز محصولات بڑھانے کا طریقہ ہیں تو انہیں ابھی بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
صرف کچھ ہی طریقے ایسے ہیں جو محصولات میں فوری اضافہ کرسکتے ہیں اور یہ طریقے بجلی، گیس اور پانی وغیرہ پر ٹیکس میں اضافہ، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں اضافہ اور ٹیکس گوشوارے نہ جمع کروانے والوں کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ٹیکس پنالٹی میں اضافہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ طریقے آنے والے ہفتوں میں سیکڑوں ارب روپے اکھٹے کرسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات مالیاتی سال کے نصف میں ہوں گے اس لیے پہلے سال کا ہدف پورا کرنے کے لیے ہمارے پاس محدود وقت ہوگا جس کا مطلب ہے کہ سخت ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی۔
مالیاتی محاذ وہ واحد محاذ نہیں ہے جہاں ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی۔ کچھ ایکشن شرحِ مبادلہ کی جانب بھی دیکھا جا رہا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شرحِ مبادلہ میں مزید ایڈجسٹمنٹ بھی ہوگی۔ فی الوقت جو کچھ ہمیں بینکار بتا رہے ہیں، اس کے مطابق اسٹیٹ بینک نے روپے کو اپنی قدر خود معلوم کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایک صحتمند پیش رفت ہے مگر آنے والے دنوں میں جب زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام سے قبل مزید کمی ہوگی تو ہوسکتا ہے کہ روپے کی قدر کو مستحکم سطح پر پہنچنے سے قبل مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
ان دونوں پیش رفتوں کا نتیجہ ہمیشہ مہنگائی کی صورت مین نکلتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی بدقسمتی تھی کہ اسے ابتدا ہی سے انتہائی سخت ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑی تھیں اور ملکی تاریخ میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ان کے دور میں تھی (کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی سی پی آئی ان دنوں 25 فیصد تک پہنچ چکی تھی)۔
مزید پڑھیے: آئی ایم ایف کا حکومت سے ریونیو میں اضافہ کرنے کا مطالبہ
شرحِ نمو 2 فیصد تک گرگئی تھی۔ کاروباری شخصیات (2008 کی عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں) تیزی سے گرتی ہوئی (مقامی اور بین الاقوامی) طلب اور ایک دہائی کی بلند ترین شرحِ سود کے نیچے اس قدر دب گئے تھے کہ تقریباً روزانہ ہی 'فیکٹری میں آگ' کے واقعات سامنے آنے لگے۔ ہم رپورٹرز کو یہ معلوم تھا کہ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی جاتی تھیں تاکہ بینک کے قرضوں میں موجود ناقابلِ پیشگوئی واقعات کی شق کا فائدہ اٹھایا جاسکے اور سرمایہ کاری پر انشورنس کی رقم حاصل کی جاسکے۔
اس وقت حکومت نے معاملات کو بحران پھوٹ پڑنے تک آئی ایم ایف کے پاس نہ جاکر حالات کو مزید خراب کیا۔ مالیاتی مارکیٹس تقریباً بند ہوچکی تھیں، زرِ مبادلہ کی بیرونِ ملک منتقلی اپنے عروج پر تھی اور روپے کے اکاؤنٹس سے تیزی سے پیسہ نکلوایا جانے لگا تھا۔ کچھ کمپنیاں تو اپنا پورا پیسہ بینکوں سے نکال کر کیش کی صورت میں محفوظ کرنے لگی تھیں کہ کہیں بینکوں سے روپے نکلوانے پر پابندی ہی عائد نہ کردی جائے۔ ہم شاید 1970ء سے اب تک بینکنگ بحران کے اتنا قریب کبھی بھی نہیں آئے۔
یہ حکومت نے جلد ہی دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کے بحرانی سطح تک پہنچنے سے پہلے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ مانگ لیا۔ کچھ لوگوں نے میرے اس دعوے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ فی الوقت پاکستان میں کوئی بحران نہیں ہے۔ میں وضاحت کرتا چلوں کہ میرے اس بیان میں کلیدی لفظ 'فی الوقت' ہے کیونکہ چیزیں بلاشبہ اسی سمت میں جا رہی ہیں۔
گزشتہ پیر اسٹاک مارکیٹ اور اس کے اگلے دن کرنسی مارکیٹ میں جو کچھ ہوا وہ بحران کا ٹریلر تھا۔ مکمل فلم کے لیے نومبر 2008ء میں روز بہ روز ہونے والی پیش رفتوں کو دیکھیے جب اسٹیٹ بینک کو بینکنگ شعبے میں لیکوئیڈیٹی کے منظم بحران کو روکنے کے ایک بے تاب اقدام کے طور پر اسٹیچیوٹری لیکوئیڈیٹی ریشو (یعنی کمرشل بینک کو کتنے اثاثے اپنے پاس فوری دستیابی کے لیے رکھنے چاہیئں) ایڈجسٹ کرنے پڑے کیونکہ کئی چھوٹے بینک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کا پیسہ پہلے (نومبر 2008ء میں) آیا جبکہ اس کے لیے آئی ایم ایف کو باقاعدہ خط بعد میں (فروری 2009ء میں) ریلیز کیا گیا۔
جانیے: ہوسکتا ہے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے، وزیراعظم
شاید یہ پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد وقت تھا جب یہ ہوا۔ چیزیں اس نہج تک اس مرتبہ بھی پہنچ سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ بروقت اقدامات نے اسے ٹال دیا ہے (امید ہے کہ معقول فیصلہ سازی جاری رہے گی)۔
معاشی ایڈجسٹمنٹ کی ہر حکومت کو شدید سیاسی قیمت چکانی پڑتی ہے مگر ہر حکومت اس سے مختلف انداز میں نمٹتی ہے۔ ایک خواہش تو بُری خبر لانے والے قاصد کا گلا گھونٹنے کی ہوتی ہے کہ فلاں فلاں پروگرام کو ختم کیا جانا چاہیے، یا وسائل کی فلاں درخواست کو مسترد کر دینا چاہیے۔ اس طرح کی صورتحال میں عتاب قاصد پر نازل کرنے کا جی چاہنا ہے۔ اور یہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کے یاد رکھنے کے لیے سب سے بڑا سبق ہے کیونکہ اس وقت وہ ایڈجسٹمنٹ کے ایجنڈے کی تیاری اور اس کے نفاذ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں