پانی کے مسئلے پر 40 سال تک مجرمانہ غفلت کی گئی، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پانی زندگی ہے اور ہماری بقا کا مسئلہ ہے جس پر 40 سال میں مجرمانہ غفلت کی گئی۔
ملک میں پانی کی قلت اور مسائل سے متعلق عالمی ماہرین کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 'پانی زندگی کے لیے ضروری ہے، پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہے اور پانی کی قلت دور کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'پانی کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے، زرعی ملک کے طور پر پاکستان کے لیے پانی نہایت اہم ہے لیکن پاکستان میں آبی ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہوتے جارہے ہیں، انسان خوراک کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر نہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'مستقبل میں پاکستان آبی قلت کا شکار ہو سکتا ہے اس لیے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'ملک کے آبی ذخائر میں اضافے کے لیے عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے، ہمارے پاس بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے سرمایہ نہیں اس لیے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈ قائم کیا جس میں پینشنرز اور بچوں نے بھی پیسے دیئے۔'
انہوں نے کہا کہ 'دنیا میں درجہ حرارت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے، پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے، پانی زندگی ہے اور ہماری بقا کا مسئلہ ہے جس پر 40 سال میں مجرمانہ غفلت کی گئی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اپنی قوم کو خشک سالی، قحط اور سیلابوں سے بچانا ہوگا، پاکستان کو قلت آب سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے، ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر قابو پالیں، پانی کی فراوانی سے ملک میں زراعت کے شعبے کی ترقی ممکن ہوسکے گی جبکہ پانی کے استعمال میں بھرپور احتیاط اور کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔'
پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے، صدر عارف علوی
صدر عارف علوی نے کہا کہ 'اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا، پاکستان کو بہترین نہری نظام ملا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد منگلا اور تربیلا سمیت چند ہی ڈیم بنائے گئے اور وقت کے ساتھ پانی کے استعمال میں اضافہ اور ذخائر میں کمی ہوئی۔'
انہوں نے کہا کہ 'پانی کو محفوظ اور ذخیرہ کرنا بنیادی مسئلہ ہے اور آبی ذخائر بنانا وقت کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی پانی کے حساس مسئلے کو اجاگر کیا، پاکستان میں 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے لہٰذا اس وقت فوری طور پر بڑے ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے پانی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا، ضرورت ہے کہ کم خرچ توانائی کے ذرائع کو بروئے کار لایا جائے، سورج اور ہوا کے ذریعے توانائی کے حصول پر بھی کام ہونا چاہیے، تھرپارکر میں پانی کی کمی کے باعث بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ قومی آبی پالیسی موجود ہے جس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔'
صدر مملکت نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مذاکرات ضروری ہیں، جبکہ قلت آب پر قابو پانے میں شجر کاری بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 14 اکتوبر تک 6 ارب روپے سے زائد رقوم ڈیم فنڈ میں جمع ہوچکی ہے۔
دو روزہ سمپوزیم سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہو رہا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ماہر مندومین شرکت کر رہے ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کانفرنس کے مہمان خصوصی ہیں جبکہ وزیر خارجہ، وزیر توانائی اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی کانفرنس میں شریک ہیں۔