افغان کرکٹ ٹیم کا گمنامی سے شہرت کی بلندیوں تک کا سفر
افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور اس کے جذبے، لڑائی کی قوت اور اس کے تباہ کن ہنر نے حال ہی میں ہونے والے ایشیاء کپ میں سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے رکھی۔ مگر کرکٹ کے میدان میں کچھ کر دکھانے کا افغانستان کا عزم شروع سے ہی نہایت مضبوط تھا۔
25 مارچ 1992ء کو پشاور میں افغان مہاجرین کے ایک کیمپ کے آس پاس کا علاقہ ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھا۔ وہاں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ایک 10 سالہ بچے کو حیرت ہوئی کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ پاکستان نے کرکٹ کا عالمی کپ جیت لیا ہے۔ اس دن سے وہ لڑکا جو فٹ بال کھیلنے کا شوقین تھا، اب ٹیپ بال کرکٹ کو سنجیدگی سے لینے لگا۔ جلد ہی اسے کرکٹ میں مہارت کی وجہ سے جانا جانے لگا۔ اس کے علاقے کے لوگ اسے نوروز افغانی یا نوروز مہاجر کہتے ہیں مگر اب دنیا اسے نوروز منگل کے نام سے جانتی ہے جو افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رہ چکے ہیں۔
منگل، جو اس وقت افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر ہیں، ماضی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ "میرا خاندان افغانستان سے پارا چنار منتقل ہوا اور پھر 1988ء یا 89ء میں پشاور کے بڈبیر علاقے میں مقیم ہوگیا۔" منگل چیف سلیکٹر بننے سے قبل اپنے ملک کے لیے 49 ون ڈے انٹرنیشنل اور 32 ٹی 20 انٹرنیشنل کھیل چکے ہیں۔
جب منگل ابھی مہاجرین کے کیمپ میں ٹیپ بال کرکٹ ہی کھیل رہے تھے، تو اس دوران افغانستان میں کسی نے پہلے ہی وہاں کرکٹ ڈھانچے کی بنیاد رکھنی شروع کر دی تھی۔ اللہ داد نوری کرکٹ کے لیے اپنے جذبے اور کابل میں اس کے لیے بنیادی کام کرنے کی وجہ سے 'بابائے افغان کرکٹ' کا لقب حاصل کر چکے ہیں۔
نوری کہتے ہیں کہ "افغانستان میں جنگ کی وجہ سے میرا خاندان بھی 1980ء میں پاکستان منتقل ہوگیا۔ ہم چارسدہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد مالاکنڈ میں مقیم ہوگئے۔ میں والی بال اور کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا۔ 92-1991ء کی بات ہے جب مجھے پشاور کے ایک کلب مالک کی نظر مجھ پر پڑی اور یوں میرا کرکٹ کا سفر شروع ہوا۔ سب سے پہلے میں نے کبیر خان، ارشد خان، جاں نثار خان (اب امریکی قومی کرکٹ ٹیم کے رکن) اور فضلِ اکبر درانی کے ساتھ کھیلا۔" 2004 میں ریٹائرمنٹ کے بعد نوری اے سی بی سے منسلک ہوگئے۔
1994ء میں نوری کاروباری معاملات کے لیے افغانستان گئے اور وہاں انہوں نے مقامی اسپورٹس کمیٹی سے ایک کرکٹ ٹیم کی شروعات کے لیے باضابطہ خط کی درخواست کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ "افغانستان میں نقل و حرکت [سیاسی] عدم استحکام کی وجہ سے آسان نہیں تھی مگر پھر بھی میں کئی مرتبہ اسپورٹس کمیٹی کے دفتر کا دورہ کرنے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حالات سازگار ہونے تک کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے تصور کو روک کر رکھیں۔"
پاکستان میں موجود پرجوش کرکٹر، ان کے بھائی خالق داد نوری نے بھی جلد ہی اپنے بھائی کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ خالق داد بتاتے ہیں کہ "1990 کی دہائی میں افغانستان میں جاری شورش کی وجہ سے ہمارے تربیتی کیمپس پاکستان میں ہوا کرتے تھے۔ پہلے ہم لوگ پشاور جمخانہ گراؤنڈ میں کھیلا کرتے اور بعد میں معمولی فیس ادا کرنے کے بعد عثمانیہ کرکٹ کلب منتقل ہوگئے۔
خالق داد بتاتے ہیں کہ "مگر طالبان دور میں افغانستان واپس منتقل ہونے کے بعد ہم نے فوراً ہی کابل میں وزیر اکبر خان گراؤنڈ میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ اگلا مرحلہ سفید کٹس میں ایک پہلا صوبائی ٹورنامنٹ تھا جس میں کابل، قندھار، خوست، جلال آباد اور کنڑ کی ٹیموں نے حصہ لیا۔" وہ اب جونیئر افغان ٹیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
"ہم نے پہلی ٹرف پچ تیار کی اور اسے سیمنٹ رولر سے رول کیا۔ ہم نے افغانستان کو دنیائے کرکٹ کے نقشے پر لانے کے لیے بے انتہا لگن کے ساتھ کیا ہے۔ ہم نے ایشیئن کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے بھی رابطے شروع کیے۔"
افغانستان کرکٹ فیڈریشن (اے سی ایف) 1995ء میں وجود میں آئی اور نوری اس کے صدر بنے۔ پہلی قومی ٹیم ابتدائی ٹرائلز کے بعد ان کی کپتانی میں قائم ہوئی جبکہ پاکستان کے رحمت گل تاجک اس ٹیم کے پہلے کوچ تھے۔ پڑوسی ملک پاکستان کے کرکٹ بورڈ کی حمایت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پی سی بی کے ساتھ تعلق معاذ اللہ خان کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ سراج الاسلام بخاری کی سربراہی میں کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن (کے سی سی اے)، کرکٹ کے شیدائی اور سابق وزیرِ کھیل سندھ (مرحوم) ڈاکٹر محمد علی شاہ، اور پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے بھی کراچی میں افغان کھلاڑیوں کے ساتھ تعاون کیا۔
داد بتاتے ہیں کہ "پی سی بی نے ہمیں پاکستان مدعو کیا، میچز منعقد کروائے اور ہمارے لیے مختلف شہروں میں مفت رہائش کا انتظام کیا۔ بعد میں ہم نے پی سی بی کے مشورے پر اے سی سی اور آئی سی سی سے الحاق کے لیے بھی درخواست دی۔ درحقیقت پی سی بی نے ان درخواستوں کے لیے ہمیں مدد فراہم کی تھی۔"
اس دوران منگل، جو 1997ء میں پہلے ٹرائلز میں شامل نہیں ہو سکے تھے، کو اس مقامی ٹورنامنٹ کے میزبان کی جانب سے کال آئی جس میں انہوں نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور پھر انہیں 20 کھلاڑیوں پر مشتمل کیمپ میں شامل کر لیا گیا۔ منگل بتاتے ہیں کہ "میں پشاور میں زیب کرکٹ کلب کے ساتھ منسلک ہوگیا جہاں میں نے کھیل کی بنیادی چیزیں سیکھیں۔ میں نے عمر گل، یاسر شاہ اور دیگر پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف بھی کھیلا ہے۔" اس کے بعد منگل پشاور میں ہونے والے ٹرائلز کے بعد افغانستان کی قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
پی سی بی نے افغانستان ٹیم کو گریڈ 2 میں شامل کر کے اور ان کی ذمہ داری سابق بین الاقوامی کرکٹر نعیم احمد کو سونپ کر افغانستان کے ساتھ تعاون کیا۔ نعیم نے 3 سیزنز تک افغان ٹیم کی کوچنگ کی۔
نعیم بتاتے ہیں کہ "پہلے سیزن (2001ء-2000ء) میں ٹیم ایک دن کے اندر 2 مرتبہ آؤٹ ہو جایا کرتی تھی۔ دوسرے سیزن میں انہوں نے کسی نہ کسی طرح میچ ڈرا کر لیا اور بالآخر تیسرے سیزن میں وہ میچ جیتنے میں بھی کامیاب رہے۔ نعیم افغان کرکٹرز کو کھیل کی عزت کی ترغیب دے کر جوش دلایا کرتے تھے۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ "کھیل کو عزت دو گے تو یہ تمہیں نت نئی منزلوں تک لے کر جائے گا۔"
نوری نے ٹیم کی سربراہی جاری رکھی جو کئی دیگر ممالک کے خلاف بھی کھیلی۔ مگر انتظامی اور تکنیکی طور پر ان کی کایا 2008ء-2007ء میں پلٹی۔ یہ تبدیلی پاکستان کے سابق ٹیسٹ فاسٹ باؤلر کبیر خان کی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر تقرری تھی جو کہ افغان کرکٹ کے سفر میں ایک اہم مرحلہ تھا۔
کبیر خان کہتے ہیں کہ "پہلے مجھے اس کی پیشکش 2007ء میں کی گئی تھی مگر کیوں کہ میں اس وقت عرب امارات کی ٹیم کے ساتھ کام کر رہا تھا اس لیے یہ پیشکش قبول نہیں کر سکا۔ مگر جب مجھے 2008 میں دوبارہ اس کی پیشکش کی گئی تو میں نے اسے قبول کر لیا۔"
جب کبیر نے افغان قومی ٹیم کا چارج سنبھالا تو وہ تنزانیہ میں ڈویژن 4 کھیل رہے تھے اور ان کی عالمی رینکنگ 100 سے بھی آگے تھی۔ خان کی آمد کے بعد افغان کرکٹ نے خود کو ایک جدید راستے پر گامزن پایا۔ کبیر کہتے ہیں کہ "مجھے ان کا رویہ پسند آیا، وہ پرجوش تھے، وہ محبِ وطن تھے، شکست سے ان کو نفرت تھی اور وہ افغانستان کو شہرت دلوانے کے لیے پرعزم تھے۔ یہی ان کی قوت بنی۔"
خان یاد کرتے ہیں کہ "افغانستان میں پھر بھی سہولیات کی کمی تھی۔ یہاں تک کہ کابل اسٹیڈیم بھی زبوں حالی کا شکار تھا۔ ان کے پاس کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا چنانچہ تربیتی کیمپس اب بھی کراچی، لاہور اور پشاور میں ہو رہے تھے۔"
خان کی زیرِ سربراہی افغانستان نے ڈویژن 2 کرکٹ کے لیے کوالیفائی کیا اور بعد میں جنوبی افریقا میں ڈویژن 2 ایونٹ میں کامیابی حاصل کی۔ ٹیم نے 2010 میں ون ڈے ٹیم کا درجہ حاصل کیا اور اس کی مجموعی رینکنگ میں بھی خاصی بہتری آئی۔ 2010 میں استعفیٰ دے دینے والے کبیر خان افغانستان میں کرکٹ کی موجودہ صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کے ابھرنے سے سیٹ اپ کافی بہتر ہوا ہے جو کہ ان کے مستقبل کے لیے ایک اچھی نشانی ہے۔
نوری بتاتے ہیں کہ "افغانستان کو ون ڈے ٹیم کا درجہ آئی سی سی کی جانب سے 20 سے 30 لاکھ ڈالر کی گرانٹ سے ساتھ ملا۔ بورڈ میں جب تبدیلیاں واقع ہوئیں تو میں بحرین میں تھا۔ اے سی بی وجود میں آیا اور صدرِ مملکت حامد کرزئی نے سیاستدان عمر زخیلوال کو اس کا چیئرمین مقرر کر دیا۔" اس دوران نوری نے خود کو 7 سے 8 سال تک کے لیے کرکٹ سے دور رکھا یہاں تک کہ ملک کے اگلے صدر اشرف غنی نے انہیں دوبارہ کرکٹ امور سنبھالنے کی ہدایت کی۔ فی الوقت وہ بورڈ میں مشاورتی اور انضباطی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف ٹیم کی تربیت کرنے والے اگلے شخص تھے۔ انہیں بیٹنگ کنسلٹنٹ کے طور پر لایا گیا تھا مگر خان کے جانے کے بعد 2010 میں انہیں افغان ٹیم کا ہیڈ کوچ تعینات کر دیا گیا۔
لطیف بتاتے ہیں کہ "مجھ سے اس وقت بورڈ کے سی ای او حامد شنواری نے رابطہ کیا۔ میں نے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ کابل میں ایک مختصر کیمپ کے دوران اچھے کھلاڑیوں کی تلاش کر سکوں۔ مجیب الرحمٰن، حشمت اللہ شاہدی، افسر زازئی، امیر حمزہ اور کچھ دیگر ممکنہ طور پر اچھے کھلاڑی تھے۔"
"ایک جونیئر سطح کے باڈی بلڈر گلبدین نائب نے بھی میری توجہ حاصل کی مگر پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔ مجھے پھر بھی اس کا نام مجھے یاد رہ گیا کیوں کہ اس کا نام مجھے افغان رہنما گلبدین حکمتیار کی یاد دلاتا تھا۔ میں نے گلبدین کو جلال آباد میں اگلے کیمپ میں بلایا۔"
کچھ دیگر کھلاڑی مثلاً شبیر نوری، عبداللہ عبداللہ، اور دولت زادران کی شمولیت کے بعد 20 سے 22 کھلاڑیوں کا ایک اچھا گروہ تیار ہو چکا تھا۔ لطیف کہتے ہیں کہ "میدان میں آپ کا ہنر کھیل کا صرف ایک پہلو ہے، مگر افغان کھلاڑیوں کا رویہ بھی بے مثال ہے۔ وہ اپنے اساتذہ کو اتنی عزت دیتے ہیں کہ استاد کا ایک حوصلہ افزاء جملہ سنتے ہی ان کی بہترین کارکردگی سامنے آنے لگتی ہے۔ مگر پھر بھی انہیں کوچنگ سے زیادہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔"
لطیف کی زیرِ تربیت افغانستان نے پاکستان کو 2010 کے ایشیئن گیمز کے سیمی فائنل میں شکست دی مگر فائنل میں بنگلہ دیش سے شکست کھا کر سلور میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے انٹرکانٹینینٹل کپ میں فتح حاصل کی۔
لطیف کے مطابق نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے افغانستان کو اپنے ایک اسٹار کی ضرورت تھی جو اسے فاسٹ باؤلر حامد حسن کی صورت میں ملا۔ "وہ ایسے باؤلر تھے جنہوں نے انٹرکانٹیننٹل کپ کے ایک میچ میں زخمی پیر کے ساتھ لگاتار 21 اوور کروائے تھے۔ انہوں نے زخم پر ٹیپ لگائی اور پھر جی جان کے ساتھ اپنے ملک کی فتح کے لیے باؤلنگ کروائی۔ حامد اس میچ میں ون مین شو تھے۔"
2011 میں لطیف نے انٹرکانٹیننٹل کپ سے حاصل ہونے والی رقم کی تقسیم پر اے سی بی سے اختلافات کو وجہ بتاتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ "میں چاہتا تھا کہ کھلاڑیوں کو 1 لاکھ روپے کی انعامی رقم میں سے بڑا حصہ ملے مگر بورڈ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا چنانچہ افغانستان کرکٹ کے ساتھ میرا یہ سفر ختم ہوا۔ مگر پھر بھی میرے پاس اس وقت کی بہترین یادیں ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔"
لطیف منظرِ عام سے چلے گئے مگر افغانستان کی ٹیم اپنے راستے پر آگے کی جانب سفر کرتی رہی۔ پھر سی ای او شنواری انتظامی بنیادوں پر افغان کرکٹ میں کافی تبدیلیاں لائے۔
شنواری کہتے ہیں کہ "میں نے افغانستان میں کرکٹ امور کے لیے مضبوط اور لچکدار تکنیکی اور آپریشنل ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور ماہرینِ کرکٹ کی مدد سے میں نے کرکٹ کی 5 سالہ ترقیاتی حکمتِ عملی تیار کی۔ اس حکمتِ عملی کے مرکزی عناصر اے سی بی کو افغانستان میں کرکٹ کی مؤثر انتظام کاری کے لیے ایک مضبوط ادارہ بنانا، ڈومیسٹک کرکٹ کی ترقی، کھیل کے تمام فارمیٹس میں افغانستان کی بین الاقوامی شرکت کو اعلیٰ ترین سطح تک بڑھانا اور ایسوی ایٹ اور فل ممبرشپس حاصل کرنا تھے۔"
اور اس طرح ملک بھر میں کرکٹ کی سہولیات پھلنا پھولنا شروع ہوئیں جن میں الوکوزے کابل انٹرنیشنل اسٹیڈیم، امان اللہ خان انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم شامل ہیں۔ نتیجتاً کھیل نے ڈومیسٹک سطح پر ترقی پائی اور کئی افغان ٹیمیں بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں اچھی پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب ہونے لگیں۔
2011 میں 'افغان چیتاز' نے محمد نبی کی کپتانی اور رئیس احمدزئی کی زیرِ تربیت پاکستان کے ڈومیسٹک ٹی 20 کپ میں شرکت کی۔ اس سے اگلے سال اے سی سی نے افغانستان کی تیز پیش رفت کا اعتراف کیا اور افغانستان کو آئی سی سی کی ایسوسی ایٹ رکنیت کے لیے نامزد کر دیا۔ اس دوران شارجہ افغانستان کے لیے ہوم گراؤنڈ تھا۔ مگر اے سی بی اور ہندوستانی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط کے بعد افغانستان کرکٹ ٹیم نے اپنا ہوم گراؤنڈ شارجہ کے بجائے ہندوستان منتقل کر دیا۔
2009 میں ڈویژن 5 سے اوپر بلند ہونے کے بعد افغانستان نے پہلی بار 2015ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلش کوچ اینڈی مولز کی زیرِ تربیت شرکت کی۔ مگر اے سی بی نے مولز کے معاہدے میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے بجائے عظیم سابق کرکٹر انضمام الحق کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے ابتدائی طور پر تو صرف اکتوبر 2015 میں افغان ٹیم کی کوچنگ قبول کی۔ بعد میں انضمام نے اپریل 2016 میں پی سی بی کا چیف سلیکٹر بننے سے قبل افغان ٹیم کے ساتھ 6 ماہ تک کام کیا۔
انضمام کا کوچنگ کا دور نہایت کامیاب رہا۔ افغانستان نے زمبابوے کے خلاف 5 میچز سمیت 17 ٹی 20 میچز میں سے 12 میچز میں کامیابی حاصل کی اور انہوں نے 2016 کے ورلڈ ٹی 20 کپ میں چیمپیئن بننے والی ویسٹ انڈین ٹیم کو اپ سیٹ سے دوچار کیا۔ انضمام کے ماتحت ٹیم نے 10 ون ڈے میچز کھیلے جو کہ تمام زمبابوے کے خلاف کھیلے گئے تھے۔ افغانستان نے ان میں سے 6 میچز میں کامیابی حاصل کی۔
انضمام کے بعد ہندوستان کے سابق کرکٹر لالچند راجپوت نے ایک سال سے کچھ عرصے کے لیے ٹیم کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کے ماتحت افغانستان نے مختلف فارمیٹس میں 10 میں سے 6 سیریز میں فتح کی اور گروس آئلیٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے ایک ون ڈے میچ میں مخالفین کو اپ سیٹ کیا، اور اس کے علاوہ لارڈز میں میریلیبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کے خلاف پہلی بار بھی کھیلا۔
کرکٹ کے میدان میں ٹیم کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ افغانستان بورڈ کو درجہ میں ترقی کی بھی ضرورت تھی اور 2017 میں بالآخر آئی سی سی نے انہیں مکمل رکنیت دینے کا اعلان کر دیا۔
اے سی بی کے سابق سربراہ عاطف مشعال، جنہوں نے جنوری 2017 میں بورڈ کی سربراہی سنبھالی تھی، کے مطابق یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ مشعال بتاتے ہیں کہ مکمل رکنیت کے حصول کے لیے انہیں کئی مسائل حل کرنے پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ "میرے سامنے کئی ترجیحات تھیں۔ سب سے پہلے مجھے بورڈ کے تمام ملازمین کی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے آئین پر کام کرنا تھا۔ آئین کے بعد خریداریوں، افرادی قوت اور مالیات کے لیے ایک 3 سالہ حکمتِ عملی تیار کی گئی۔ اس کے علاوہ میں نے 5 سالہ آڈٹ بھی شروع کروایا تاکہ ادارے کی صفائی کی جاسکے اور اسے جدید، پروفیشنل اور ایک بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنایا جا سکے۔"
مشعال بتاتے ہیں کہ "حکومت کی حمایت سے اب ہمارے پاس پکتیا، ننگرہار، ہلمند اور زابل کے صوبوں میں 5 گراؤنڈ زیرِ تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے لوگر، بامیان اور مزارِ شریف میں اسٹیڈیمز کی تعمیر کے لیے بھی فنڈز ملے جو کہ اب اگلے سال تک تعمیر ہو جائیں گے۔ یہ تمام ڈیزائن وزارتِ شہری ترقی کے پروفیشنل انجینیئرز نے منظور کیے ہیں۔"
مشعال کے دور کا نکتہ عروج وہ تھا جب جون 2017 میں آئی سی سی نے آئرلینڈ کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی ٹیسٹ درجہ دے دیا۔ افغانستان نے اپنا افتتاحی ٹیسٹ میچ ہندوستان کے شہر بنگلورو میں جون 2018 میں کھیلا۔
مشعال کہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کے لیے ایک بین الاقوامی ٹی 20 لیگ کی بھی منصوبہ بندی کی ہے۔ "محدود فنڈز اور وسائل کی وجہ سے یہ ناممکن لگتا تھا مگر وقت اور کوششوں کی وجہ سے پہلے ہم اے سی بی کو اس پر قائل کرنے میں کامیاب رہے اور پھر ہمیں اس کے لیے مالیاتی پارٹنرز اور متعلقہ منظوریاں بھی حاصل ہوگئیں۔ اماراتی کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی سے اجازتیں بھی حاصل کر لی گئیں۔" گزشتہ ماہ (ستمبر) میں مشعال استعفیٰ دے چکے ہیں مگر افغانستان پریمیئر لیگ کا آغاز اس ماہ ہو چکا ہے اور فی الوقت یہ 40 بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں جاری ہے۔
موجودہ سی ای او شفیق اللہ عصمت ستانیکزئی کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ افغانستان کرکٹ میں 2000ء-1999ء کے دوران سرگرم کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے پاس پہلی ڈومیسٹک سنچری کا بھی ریکارڈ موجود ہے۔ کندھے کی انجری کی وجہ سے 2004 میں ان کا کریئر ختم ہوگیا جس کے نتیجے میں انہوں نے افغانستان کرکٹ فیڈریشن کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔
ستانیکزئی کہتے ہیں کہ "میری ذمہ داریاں دیگر کرکٹ باڈیز اور قوموں کے ساتھ رابطہ کاری اور ان کے ویزوں اور لاجسٹکس کا انتظام کرنا تھا۔ اے سی بی کے قیام کے بعد مجھے قومی ٹیم کا مینیجر مقرر کیا گیا۔" انہیں صدرِ مملکت کے ساتھ ایک انٹرویو کے بعد اے سی بی کا سی ای او مقرر کیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ "ہمارے سامنے جو چیلنج موجود ہے وہ تکنیکی اسٹاف کی کمی ہے کیوں کہ کرکٹ اب بھی اس ملک کے لیے کافی نیا ہے۔ ہمارے پاس سابق کھلاڑیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد ہے جو اے سی بی کے لیے کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔"
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 14 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں