• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

چیئرمین نیب کے خلاف سیاسی دباؤ استعمال نہیں کیا جاسکتا، فواد چوہدری

شائع October 17, 2018

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ چیئرمین نیب کے خلاف سیاسی دباؤ استعمال نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ نیب کے قوانین کو بہتر اور شفاف بنایا جاسکتا ہے تو اس کے لیے ہم موجود ہیں۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اور اسپیکر قومی اسمبلی نے ثابت کردیا کہ آپ جمہوری روایت کے امین ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ریمانڈ کے دوران کسی ملزم کو ایوان میں بلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا گیا اور آج ایوان کا اجلاس بلایا گیا، جس پر تقریباً10 کروڑ روپے کا خرچ آیا۔

انہوں نے کہا کہ 1981 میں نواز شریف پہلی مرتبہ حکومت میں شامل ہوئے اور مسلم لیگ (ن) نے بنیادی طور پر جنرل (ر) ضیا الحق کی کوکھ سے جنم لیا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے جس سیاسی فلسفے سے جنم لیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگانے سے شروع ہوا تھا تو یہ لوگ انتقام کی بات نہ کریں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام لینا کسے کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا ملک کے تمام خزانوں، نظام، سیاسی طاقت کے انچارج اگر کوئی ایک خاندان اور سیاسی جماعت تھی تو وہ مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نیب میں تحریک انصاف نے کوئی بھرتی نہیں کی جبکہ چیئرمین نیب کی تقرری مسلم لیگ(ن) اور خورشید شاہ نے مل کر کی، یہاں کا سارہ تحقیقاتی نظام بھی انہی لوگوں نے لگایا۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیف الرحمٰن کو نیب کا انچارج لگایا گیا اور جو لوگ انتقام کا شکوہ کر رہے ہیں، انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کس طرح سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ سلوک کیا گیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کبھی پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف جج کو فون کرکے کہتے ہیں کہ ’ 3 سال کی قید بہت کم ہے، اسے 7 سال کردیں‘ اور ویسا ہی ہوتا ہے جو اپوزیشن کے انتقام کی تاریخ ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث ایسی ہونی چاہیے کہ اپوزیشن سے اگر کوئی نقطہ آئے تو پھر یہاں سے جواب آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ بہت سے معاملات پر اختلافات ہیں جو اپنی جگہ پر رہیں گے لیکن بہت سے معاملات جو ملک کے لیے بہتر ہو ان پر ساتھ چلا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1999 میں جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت رہی تو کسی ضلع میں کوئی ایسا سیاسی کارکن نہیں تھا، جس پر مقدمہ نہ ہو اور یہ ساری کارروائیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی تھیں اور جب یہ لوگ اقتدار میں تھے تو ان کے شر سے کوئی رہنما محفوظ نہیں تھا۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور میں عمران خان پر 32 کیسز کیے گئے جس میں 8 دہشت گردی کے تھے اور یہ سب مقدمے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم لوگ تو ناتجربہ کار ہیں اور پہلی مرتبہ آئیں ہیں لیکن اس ایوان میں 3 عشروں سے آنے والوں کے پاس آغاز میں دھیلا نہیں تھا اور آج خاندان کا ہر شخص ارب پتی ہے‘

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف پر جو مقدمات بنے ہیں، ان میں سے ایک بھی ہم نے نہیں بنایا، نہ ہی گرفتاریوں سے ہمارا کوئی تعلق ہے، مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب بھی 50 چوروں کو پکڑنے کی بات آتی ہے تو اپوزیشن کیوں پریشان ہوجاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کو پارلیمانی کمیٹی میں اس طرح نہیں بلایا جاسکتا اور نہ ہی ان پر سیاسی دباؤ استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نیب کا احتساب کا عمل بہتر بنایا جاسکتا ہے تو اس کے لیے اپنی تجاویز پیش کریں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ان پر مقدمہ بننے سے خدانخواستہ چین سے روابط خراب ہوجائیں گے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب طویل عرصے تک اقتدار میں رہا جاتا ہے تو جمہوریت کے بجائے بادشاہت کی طرف چلے جاتے ہیں جو مسلم لیگ(ن) گئی تھی، جبھی انہیں یہ لگتا ہے کہ چین سے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ چین، سعودی عرب، ترکی اور ایران سے پاکستان کے تعلقات کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہورہے ہیں۔

قبل ازیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہا ہے کہ احتساب کے عمل سے جمہوریت کو نہیں صرف موٹو گینگ کو خطرہ ہے، شہباز شریف جب یہاں آئیں ہیں تو ہاؤس میں ایک مثبت بحث ہونی چاہیے اور اپنے ہی بنائے گئے احتساب کے اداروں پر تنقید کے بجائے یہ بتانا چاہیے کہ احتساب کے عمل کو کس طرح شفاف بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم احتساب کے عمل میں شفافیت پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اس عمل کو روک نہیں سکتے، پاکستان کو گزشتہ 10 سالوں میں اس حالت پر پہنچانے والوں کا اگر احتساب کا وقت آیا ہے تو اس میں نرمی نہیں آنی چاہیے بلکہ اسے آگے بڑھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا نیب سے گٹھ جوڑ ہے، شہباز شریف

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ احتساب میں شفافیت کے عمل پر بات چیت ہونی چاہیے، احتساب کے قانون میں اگر ترمیم چاہتے ہیں تو اسے سامنے لانا چاہیے کیونکہ اس عمل میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم یا وفاقی کابینہ کا احتساب کے فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں اور قانون میں لکھا ہوا ہے کہ چیئرمین کا اختیار ہے کہ وہ اس معاملے میں کیا چاہتے ہیں اور گزشتہ 10 برسوں میں احتساب کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔

انہوں نے مسلم لیگ(ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہم آپ کے رسم و رواج کو آگے نہیں لے جانا چاہتے بلکہ ملک میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شور شرابا کرنے یا ہنگامہ آرائی کرنے سے احتساب کا عمل رک جائے گا تو ایسا نہیں ہے، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ 50 لوگ جیل میں ہونے چاہیئں یہ جھگڑا انہیں 50 لوگوں نے ڈالا ہوا ہے، انہوں نے جو پاکستان کا پیسہ چوری کیا ہے وہ پیسہ ہم واپس لائیں گے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک کی حالت ایسی کردی کہ کوئی ادارہ منافع میں نہیں ہے، پی آئی اے پر 406 ارب کا قرضہ ہے اور ہر مہینے 2 ارب کا نقصان کر رہی ہے، 2013 میں گیس کے محکمے کا کوئی خسارہ نہیں تھا لیکن 5 سال میں اربوں روپے کا خسارہ پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے عمل سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، خطرہ صرف موٹو گینگ کو ہے اور یہ گینگ جتنا شور مچا لے احتساب کا عمل نہیں رکے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آئے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ن) کے دور میں لگائے گئے پاور پلانٹس کے خصوصی آڈٹ کا اعلان

ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کوئی جگہ نہیں مل رہی اور بہت جلد پاکستان کے لوگوں کے لیے خوشخبری آنے والی ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت ہماری حکومت سنبھالنے کے وقت سے کم ہے، ہاں گیس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جو عام صارف کے لیے صرف 10 فیصد ہے اور اس سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مقامات پر جعلی مہنگائی کی گئی، جسے صوبوں کو کنٹرول کرنا چاہیے تھا، اس حوالے سے وزیر اعظم نے میکانزم پر عمل درآمد یقینی بنانے کا کہا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

noman ahmed Oct 17, 2018 01:03pm
Goverment ko chaiye ke har idaray se free ki chezain band kar dain, maslan 1) free electicity units 2) free gas units 3) free air tickets 4) free railway tickets 5) free phone call units 6) free toll tax etc etc ye sab wo chezain hain jo k sirf baray officers ke liye hotay hain, halankay ye log easily afford kar saktay hain lakin phir bhi pata nahi kyon govement in ko free me daite hai ye chezain, agar ye chezain kisi nichlay employees ko dain to phir bhi baat samajh aate hay.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024