‘سعودی عرب پر پابندیاں لگائی گئیں تو عالمی معیشت تباہ ہوسکتی ہے‘
دبئی: سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے حوالے بتایا کہ سعودی عرب غلط الزامات پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے اپنے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیوں کو مکمل مسترد کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس قسم کا کوئی بھی اقدام کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، کیونکہ سعودی عرب کی معیشت عالمی اقتصادیات میں انتہائی اہم اور موثر مقام رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہوا تو اسے سبق سکھائیں گے، امریکی صدر
خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب میں شاہی خاندان کی جانب سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات کے مخالف تھے اور اکثر ان پر تنقید کرتے تھے۔
وہ 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں جبکہ ترکی نے انہیں قتل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
صحافی کی گمشدگی پر ترکی کے سخت ردعمل کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صحافی کے سعودی قونصل خانے میں مبینہ قتل پر ’سخت ترین سزا‘ کی دھمکی دی تھی، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن نے ریاض کو اسلحے کی فروخت روکی تو یہ خود کو سزا دینے کے مترادف ہوگا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا دھمکی آمیز بیان، سعودی اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار
دوسری جانب یورپ کے اہم ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اس کیس کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
تینوں ممالک کا اپنے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ معاملے کے حقائق سے آگاہی کے لیے معتبر تحقیقات ہونی چاہیے، جس میں اگر صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی میں ملوث افراد کی نشاندہی ہوتی ہے تو انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم اس سلسلے میں سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ کوششوں کی حمایت کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرے گی، جبکہ یہ پیغام براہِ راست سعودی حکام کو بھی ارسال کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا‘
تاہم امریکی سینیٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاض میں عنقریب منعقد ہونے والے اقتصادی اجلاس کا بائیکاٹ کیا جائے اور یمن میں سعودی فوج کی مدد بھی روک دی جائے۔
اس سلسلے میں سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے بعد ایک کالم میں العربیہ چینل کے جنرل مینیجر ترکی الدخیل نے خبردار کیا کہ اگر دنیا کی سب سے بڑی تیل برآمد کرنے والی معیشت پر پابندی لگائی گئی تو اس سے عالمی معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔