• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

افغان جنگ کے خاتمے کیلئے امریکی نمائندے کی طالبان سے ملاقات

شائع October 13, 2018 اپ ڈیٹ October 14, 2018
زلمے خلیل کو افغان جنگ کے پرامن خاتمے کی راہیں تلاش کرنے کے لیے امریکا نے رواں ماہ ہی نمائندہ خصوصی مقرر کیا ہے— فائل فوٹو
زلمے خلیل کو افغان جنگ کے پرامن خاتمے کی راہیں تلاش کرنے کے لیے امریکا نے رواں ماہ ہی نمائندہ خصوصی مقرر کیا ہے— فائل فوٹو

افغانستان میں 17سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کے خصوصی وفد نے طالبان کے نمائندوں سے قطر میں ملاقات کی جس میں دونوں فریقین نے مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے پر زور دیا۔

طالبان کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات جمعہ کو قطر میں ہوئی جہاں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔

طالبان کے سیاسی دھڑے کے سربراہ عباس استنکزئی کی زیر قیادت 5 رکنی وفد نے خلیل زاد سے ملاقات کی اور افغان جنگ کے پرامن اختتام کے طریقوں پر گفتگو کی۔

ملاقات میں طالبان نے موقف اپنایا کہ ان کے لیے افغانستان میں امریکی اور دیگر غیرملکی افواج کی موجودگی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، چین کے قرضوں کے باعث مشکلات میں پھنسا ہے، امریکا

طالبان ترجمان کے مطابق دونوں فریقین نے افغانستان سے امریکی افواج کے اچھے انداز میں انخلا کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

کابل میں امریکی سفارتخانے نے اپنے بیان میں کہا کہ زلمے خلیل زاد ہفتے کو افغان دارالحکومت میں موجود تھے جہاں انہوں نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔

زلمے خلیل زاد کو امریکا نے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا تھا جس کے بعد انہوں نے پاکستان، متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور اب قطر سے افغانستان پہنچے ہیں۔

تاہم ہفتے کو جاری بیان میں افغان صدر اشرف غنی نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے ملاقات کے دوران انہیں خطے کے دیگر ممالک کے دوروں کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا لیکن اس میں طالبان سے ملاقات کا کہیں تذکرہ نہیں کیا گیا۔

خلیل زاد کو رواں ماہ 4 اکتوبر کو نمائندہ خصوصی کی ذمے داری سونپی گئی تھی جس میں انہیں 17 سال سے جاری افغان جنگ کے پرامن خاتمے کے لیے طریقہ کار تلاش کرنے کا کام سونپا گیا جس کے نتیجے میں اب تک امریکا کو 9 سو ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔

افغانستان میں ازسرنو تعمیرات کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے کہا کہ ان 9 سو ارب ڈالر میں سے 7 سو 20 ارب ڈالر امریکی فوجی آپریشنز پر خرچ کیے گئے۔

انہوں نے رواں سوال کے اوائل میں اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس جنگ کے نتیجے میں 2 ہزار 4 سو امریکی اور ایک ہزار ایک سو نیٹو ممالک کے فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں افغانی اہلکار بھی مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مفاہمتی عمل کے امریکی نمائندے کی وزیرخارجہ سے ملاقات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغان جنگ میں ہونے والے بھاری اخراجات اور اس کے نتیجے میں امریکی معیشت پر پڑنے والے بوجھ کے بڑے ناقدین میں سے ہیں اور اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اس جنگ کے خاتمے پر زور دیا تھا۔

اس کے بعد سے امریکی صدر نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے اور اپنے ملک میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لیے پاکستان سے مزید کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا نے کبھی بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024