ملک ریاض کو سندھ ہائی کورٹ نے ملک سے باہر جانے سے روک دیا
سندھ ہائی کورٹ نے پنجاب کے سیکریٹری جنگلات کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین کے خلاف دائر زمین کے فراڈ اور جعل سازی کے مقدمے میں انہیں حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے ملک سے باہر جانے سے روک دیا۔
ملک ریاض حسین، سندھ ہائی کورٹ کی حیدر آباد برانچ میں پیش ہوئے جہاں ایک رکنی بینچ نے انہیں ایک لاکھ روپے کے عوض 10 روز کے لیے حفاظتی ضمانت دی اور اتنی ہی رقم کے مچلکے عدالت کے ایڈیشنل رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی۔
وکیل سالم سلام انصاری نے ملک ریاض کے خلاف اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ پولیس اسٹیشن راولپنڈی میں دائر مقدمہ نمبر 20/2018 میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی جو کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 409، 109، 420 اور پری ونشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کی شق 5 (2) کے تحت قابل سزا ہے۔
وکیل نے موقف اپنایا کہ درخواست گزار بے گناہ ہیں اور بددیانتی کی بنیاد پر ان کے خلاف شکایات درج کرادی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: جنگلات کی اراضی پر قبضے کا الزام: ملک ریاض کے خلاف مقدمہ درج
ان کا کہنا تھا کہ میرے موکل خود کو ٹرائل کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو تیار تھے لیکن اینٹی کرپشن پولیس، راولپنڈی کی اینٹی کرپشن عدالت اور پنجاب کے تمام ایئرپورٹ کے اطراف میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملک ریاض کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کے لیے ضمانت نہ دی گئی تو اینٹی کرپشن پولیس بددیانتی کے ارادے سے انہیں گرفتار کرکے تنگ کرے گی۔
عدالت نے مقدمے کے کسی پہلو کو دیکھے بغیر انہیں ٹرائل کورٹ میں پیشی کے لیے ایک لاکھ روپے کی عوض ضمانت اور ایک لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا جس کا نفاذ 9 اکتوبر سے ہوگا۔
عدالت نے اپنے حکم میں تحریر کیا کہ ‘درخواست گزار کسی ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن یا کسی اور راستے سے پاکستان سے باہر نہیں جائیں گے’۔
درخواست کو نمٹاتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہ حکم 18 اکتوبر یا درخواست گزار کے ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے تک کارآمد ہوگا۔
وکیل نے اپنی درخواست میں کہا کہ لاہور کے جنگلات، وائلڈ لائف اور فشریز کے ایڈیشنل سیکریٹری کی جانب سے میرے موکل کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مقدمہ دائر کروایا ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے اور اس میں درج تمام شکایات بھی جھوٹ ہیں کیونکہ اس طرح کا کوئی الزام درخواست گزار سے سرزد نہیں ہوا، ان کے خلاف انکوائری اور تفتیش گھڑے گئے حقائق پر مبنی ہیں جو ایف آئی آر سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض کے خلاف ’زمین کے قبضے‘ کا مقدمہ
درخواست کے ساتھ مذکورہ ایف آئی آر کی نقل بھی جمع کرائی گئی ہے جو ایڈیشنل سیکریٹری ٹیکنیکل جنگلات، وائلڈ لائف اور فشریز شاہد راشد اعوان نے 5 اکتوبر کو راولپنڈی میں درج کرائی تھی۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جنگلات کی ایک ہزار 170 کینال اراضی کا بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے ساتھ تبادلہ کیا گیا ہے جبکہ ایف آئی آر میں ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے افسران اور عہدیداروں کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کی انسپکشن ٹیم کی جانب سے جاری کی گئی سمری کے تحت متعلقہ حکام کی منظوری سے باقاعدہ انکوائری بھی کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ‘جدید طریقے سے تمام سرکاری زمینوں کا تفصیلی سروے کرایا جائے اور بحریہ ٹاؤن سمیت دیگر رہائشی اسکیموں سے جنگلات کی زمینوں کو واگزار کرایا جائے’۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘ایک اور انکرائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن لاہور نے موضع جالیان میں 60 کینال اراضی پر قبضہ کیا جو پی سی بی ایل کی زمیں تھی، اس لیے پنجاب بھر میں جہاں بھی بحریہ ٹاؤن رہائشی اسکیمیں بنارہا ہے وہاں پر سروے آف پاکستان وقت کی ضرورت ہے’۔
ملک ریاض میڈیا سے بچ کر وکلا کے راستے سے عدالت سے باہر چلے گئے جبکہ عدالت میں پیش ہونے سے قبل وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے دفتر میں بیٹھے رہے اور رپورٹ کے مطابق وہ حیدرآباد ایئرپورٹ میں اپنے ہیلی کاپٹر میں آئے تھے۔
یہ خبر 10 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔