آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں کیا پاکستانی ٹیم واقعی فیورٹ ہے؟
جب آسٹریلیا کی ٹیم 7 اکتوبر کو پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ کے لیے میدان میں اترے گی تو یہ اس کا رواں سال جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے میچ کے بعد پہلا ٹیسٹ ہوگا۔
جی ہاں، یہ وہی ٹیسٹ میچ ہے جس میں بدنام زمانہ بال ٹیمرپنگ اسکینڈل سامنے آیا اور آسٹریلیا نے واقعے میں ملوث کپتان اسٹیون اسمتھ اور ان کے نائب ڈیوڈ وارنر پر ایک، ایک سال کی پابندی عائد کرتے ہوئے کیمرون بین کرافٹ کو بھی سزا سنائی۔
تاہم ایک اسکینڈل کے تقریباً 6 ماہ بعد پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے اور اہم کھلاڑیوں کی غیر موجودگی کے باوجود گزشتہ دنوں آسٹریلین فاسٹ باؤلر پیٹر سڈل نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے ذریعے ہمارے پاس متحدہ عرب امارات میں سیریز جیتنے کا اہم موقع ہے۔ آخر سڈل کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا ان کے بیان میں کچھ حقیقت بھی ہے یا یہ محض لفطی بیان بازی تک محدود ہے؟
بظاہر تو سیریز میں پاکستان کی ٹیم فیورٹ نظر آ رہی ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے اور کیا اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر سے محروم آسٹریلین ٹیم امارات میں ترنوالہ ثابت ہوگی یا سڈل کا بیان کسی حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیو اسمتھ، ڈیوڈ وارنر پر ایک سال کی پابندی عائد
اگر غور کیا جائے تو پاکستان کو فیورٹ تصور کرنے کا بیانیہ درست محسوس نہیں ہوتا بلکہ آسٹریلین بیٹنگ لائن سے قطع نظر سیریز میں اصل مقابلہ پاکستان کی بیٹنگ اور آسٹریلین باؤلنگ کا ہوگا اور اس مقابلے کا نتیجہ ہی اس سیریز کے کا فیصلہ کرے گا۔
اسمتھ اور وارنر پر پابندی کے سبب بے شک آسٹریلین ٹیم کمزور نظر آرہی ہے لیکن ہماری ٹیم میں بھی سارے بریڈ مین یا ویرات کوہلی موجود نہیں لہٰذا اگر قومی ٹیم یہ سیریز برابر کرنے میں بھی کامیاب رہتی ہے تو یہ بھی غنیمت ہوگا۔
جہاں ایک طرف آسٹریلین ٹیم کمزور اور بڑے ناموں سے محروم نظر آتی ہے وہیں ہماری ٹیم کی بیٹنگ لائن بھی ٹی20 اور ٹیسٹ کرکٹ کا مکسچر نظر آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شاداب آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ سے باہر
دنیا کی تمام بہترین ٹیسٹ ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بناتی ہیں جس کی تازہ ترین مثال بھارتی نوجوان کرکٹر پرتھوی شا ہیں جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف جاری ٹیسٹ میچ میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کی۔
اسکول کرکٹ میں رنز کی ریکارڈ اننگز، رانجی ٹرافی اور فرسٹ کلاس ڈیبیو پر سنچری کے بعد بھارت کو انڈر 19چیمپیئن بنوانے والے پرتھوی شا نے انڈین اے ٹیم کے دورہ انگلینڈ میں بھی سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔
عظیم بلے باز راہول ڈراوڈ کے زیرِ تربیت پروان چڑھنے والے کرکٹر کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ماہرین نے مستقبل کا عظیم کرکٹر قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماہرین کی مسلسل ستائش، انڈر19 ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی اور انڈین پریمیئر لیگ میں رنز کے ڈھیر لگانے کے باوجود بھی آخر بھارتی بورڈ نے پرتھوی شا کو دورہ انگلیڈ اور ایشیا کپ کے لیے آخر کیوں منتخب نہیں کیا؟
مزید پڑھیں: پاکستان اور آسٹریلیا کے پاس رینکنگ بہتر بنانے کا موقع
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دنیا میں کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کو اہم سمجھا جاتا ہے، لیکن ہم چونکہ منفرد ہیں اس لیے راستہ بھی منفرد ہی چنا۔ ہم نے قائد اعظم ٹرافی کی جگہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سے کھلاڑیوں کے انتخاب کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس کی بڑی مثال ایشیا کپ اور پھر آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے قومی ٹیم کی سلیکشن ہے۔
پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم میں کم از کم 5 کھلاڑی پی ایس ایل کی بنیاد پر قومی ٹیم میں ہوئے، ٹی20 کی حد تک تو بات درست ہے لیکن معاملہ ون ڈے کرکٹ سے ہوتا ہوا اب ٹیسٹ ٹیم تک پہنچ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پرتھوی شا ڈیبیو پر سنچری بنانے والے سب سے کم عمر بھارتی بلے باز
ایسا نہیں کہ ہمارے پاس اعلیٰ معیار کے اچھے اوپنرز کا قحط پڑگیا ہو بلکہ شان مسعود اور خصوصاً سمیع اسلم جیسے نوجوان مشکل کنڈیشنز میں کارکردگی کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن ہم جارحانہ کرکٹ کا نعرہ لگاتے ہوئے کھلاڑیوں سے حق تلفی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
فخر زمان کی تکنیک اور کھیل کے انداز پر پہلے ہی دن سے سوالات اٹھتے رہے ہیں جبکہ امام الحق کی بھی بڑی ٹیموں کے خلاف کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرکے نجانے ہم کیوں قومی ٹیم کو تربیت گاہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اگر پاکستانی ٹیم کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو اظہر علی کے سوا کوئی بھی کھلاڑی ٹیم کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
جہاں فخر اور امام کی ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کسی بڑے عجوبے سے کم نہیں وہیں بابر اعظم اب تک کھیل کے سب سے بڑے فارمیٹ میں اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہیں کرسکے۔
محمد حفیظ تجربے سے مالا مال ہیں لیکن 2 سال بعد ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کے سبب سیریز میں ان پر بھی کافی دباؤ ہوگا جبکہ 61 ٹیسٹ میچ کھیلنے کے باوجود اسد شفیق اب تک وہ کھیل پیش نہیں کرسکے جس کی ان کے پائے کے کھلاڑی سے توقع کی جاتی رہی ہے۔
مزید پڑھیں: عمران طاہر نے ہیٹ ٹرک کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا
کپتان سرفراز احمد کی بات کی جائے تو وہ گزشتہ ایک سال سے اپنی فارم کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن فارم ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور ایشیا کپ میں بدترین ناکامی کے بعد ان پر آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی دکھانے کے ساتھ ساتھ قیادت بچانے کا بھی دباؤ ہوگا۔
ایک دور میں ورلڈ کلاس تصور کی جانے والی باؤلنگ بھی کچھ ایسی ہی منظر کشی کرتی نظر آتی ہے جس میں سوائے یاسر شاہ کے کسی سے توقع رکھنا بے سود ہے لیکن کیا یاسر شاہ اکیلے 20 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرسکیں گے۔
اگرچہ محمد عباس نے خود کو ٹیسٹ کرکٹ کے لیے خود کو اچھے آپشن کے طور پر منوالیا ہے لیکن متحدہ عرب امارات کی بے جان وکٹوں پر ان سے زیادہ امیدیں رکھنا ناانصافی ہوگی۔
محمد عامر کی مستقل خراب فارم کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈراپ کرنے کا فیصلہ درست ہے، لیکن نجانے جنید خان سے ٹیم منیجمنٹ کو کیا مسئلہ ہے کہ کارکردگی اور فٹنس کے باوجود انہیں اس بار بھی ٹیم سے باہر کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ ایک بار پھر وہاب ریاض کو ٹیم کا حصہ بنالیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹارک اور سڈل نے پاکستان کے سب سے اہم بلے باز کا نام بتا دیا
وہاب کو مکی آرتھر نے یہ کہہ کر ٹیم سے باہر کیا تھا کہ انہوں نے 2 سال میں قومی ٹیم کو کوئی بھی میچ نہیں جتوایا، اگر اعتراض یہی ہے تو پھر دوبارہ ٹیم میں شامل کرنے سے پہلے یہ بھی بتانا چاہیے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں انہوں نے ایسی کونسی کارکردگی دکھائی جس نے ایک بار پھر کوچ کو متاثر کرلیا؟
فہیم اشرف کا معاملہ بھی فخر اور امام سے کچھ مختلف نہیں جبکہ نوجوان میر حمزہ کو امارات کی بے جان وکٹوں پر ڈیبیو کرانے کی تیاری ہو رہی ہے جو ان کے کیریئر کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
قومی ٹیم کی بات تو ہوگئی، مگر ایک نظر آسٹریلوی ٹیم پر بھی ڈالتے ہیں۔ اگر اس ٹیم کی بیٹنگ لائن اسمتھ اور وارنر کی غیر موجودگی میں کمزور ہے تو اس کی کمی باولرز پوری کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ان کے پاس مچل اسٹارک اور پیٹر سیڈل جیسے زبردست فاسٹ باولرز کے ساتھ ساتھ نیتھن لایون اور جون ہولینڈ جیسے اسپنرز بھی موجود ہے جو ان وکٹوں میں مخالف بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں، پاکستان اے کے خلاف وہ اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرچکے ہیں۔
میری اس بات پر کئی لوگوں کو شاید یہ اعتراض ہو کہ جب آسٹریلین ٹیم نے اس سے پہلے امارات کا دورہ کیا تھا تو اس وقت بھی اسٹارک، سڈل اور لایون موجود تھے، مگر اس وقت تو وہ ناکام ہوئے تھے۔ لیکن یہ اعتراض کرنے سے والے یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت پاکستانی بیٹنگ لائن میں یونس خان اور مصباح الحق جیسے اہم ستون موجود تھے جنہوں نے آسٹریلین باؤلرز کو بے بس کردیا تھا لیکن اب اظہر علی یا اسد شفیق پر یہ ذمے داری عائد ہوگی اور مصباح اور یونس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک یہ دونوں اپنے کردار سے انصاف کرنے میں ناکام رہے جو قومی ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
مزید پڑھیں: آسٹریلین برتری کے ساتھ 4روزہ میچ کا ڈرا پر اختتام
جاتے جاتے مجھے کپتان سرفراز احمد کا ایک بیان یاد آگیا۔ جب ہم ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف پہلا میچ ہارے تھے تو سرفراز احمد نے کیدار جادھو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے تو 2 باؤلرز (کلدیپ یادو اور یزویندر چاہل) کے خلاف تیاری کی تھی لیکن وکٹیں کوئی تیسرا ہی لے گیا لہٰذا سرفراز احمد سے صرف اتنی سی گزارش تھی کہ آسٹریلیا کے خلاف جان ہولینڈ پر بھی نظر رکھیے گا کہیں ایسا نہ ہو اس بار یہی وہ ’تیسرے باولر‘ ثابت ہوجائیں جو تمام وکٹیں لے جائیں۔