آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا
لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا۔
شہباز شریف کو، جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہے، نیب نے آج طلب کیا تھا اور وہ بیان ریکارڈ کرانے نیب لاہور کے دفتر پہنچے تھے، جہاں انہیں پہلے حراست میں لیا گیا اور ان کی باضابطہ گرفتاری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی رابطہ کیا گیا۔
رولز کے تحت قومی اسمبلی کے رکن کی گرفتاری کی صورت میں اسپیکر کو اطلاع دی جاتی ہے۔
نیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہفتہ کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نیب کی جانب سے شہباز شریف کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کیے جانے کا امکان ہے۔
شہباز شریف کو حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں نیب دفتر لانے والی گاڑی کو واپس بھجوا دیا گیا۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو حراست میں لیے جانے کے بعد نیب لاہور کے دفتر کے باہر سیکیورٹی بڑھا دی گئی اور پولیس کے ساتھ رینجرز کے دستے بھی نیب دفتر کے باہر تعینات کر دیئے گئے ہیں۔
شہباز شریف کی گرفتاری 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے چند روز قبل سامنے آئی۔
واضح رہے کہ شہباز شریف، صاف پانی کیس اور 14 ارب روپے کے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں متعدد بار اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نیب کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ آشیانہ اقبال اسکینڈل میں شہباز شریف سے قبل فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، شاہد شفیق، اسرار سعید اور عارف بٹ کو نیب نے اسی کیس میں گرفتار کیا تھا جبکہ دو ملزمان اسرار سعید اور عارف بٹ ضمانت پر رہا ہیں۔
شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی مذکورہ ٹھیکہ دیا۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے اس غیر قانونی اقدام سے سرکاری خزانے کو 19 کروڑ کا نقصان ہوا۔
شہباز شریف پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں ںے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا لیکن ایل ڈی اے منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہا اور اس سے 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
اس کے علاوہ شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسٹنسی کا ٹھیکہ ایم ایس انجیئنر کنسٹنسی سروس کو 19 کروڑ 20 لاکھ میں ٹھیکہ دیا جبکہ نیسپاک نے اس کا تخمینہ 3 کروڑ لگایا تھا۔
سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق سربراہ احد چیمہ بھی اسی کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
فواد حسن فواد نے اگست میں نیب کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے شہباز شریف کے کہنے پر 14 ارب روپے آشیانہ ہاؤسنگ منصوبے کا کانٹریکٹ 'من پسند' فرم کو دیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ فواد حسن فواد نے سابق وزیر اعلیٰ کے خلاف 'ناقابل تردید' شواہد بھی پیش کیے، جس کے بعد نیب لاہور کی تفتیشی ٹیم کے سامنے شہباز شریف کو اپنا دفاع کرنا مشکل ہوگیا۔
ان کے خلاف صاف پانی کمپنی کیس کی تفتیش بھی جاری ہے اور نیب نے انہیں آج اس کیس میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بھی طلب کر رکھا تھا۔
شہباز شریف، صاف پانی کیس اور 14 ارب روپے کے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں متعدد بار اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نیب کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
ان پر صاف پانی کمپنی کے کانٹریکٹس دینے میں پپرا (پی پی آر اے) رولز کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
نومبر 2017 میں نیب نے شہباز شریف انتظامیہ کی جانب سے قائم 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام کی مکمل تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔