• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

بینظیر بھٹو قتل کیس: پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد

شائع October 5, 2018

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد کردی۔

سپریم کورٹ نے پولیس افسران کی ضمانت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ملزمان نے ضمانت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو سزاؤں کے باوجود ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے ضمانتیں دی گئی تھیں، جس کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی کارکن رشیدہ بی بی نے درخواست دائر کی تھی۔

درخواست پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل لطیف کھوسہ، پولیس افسران کے وکیل خالد رانجھا اور دیگر حکام پیش ہوئے، اس موقع پر خصوصی طور پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں آئے۔

مزید پڑھیں: بینظیر بھٹو قتل کیس: ریویو بورڈ کا ملزمان کی نظربندی میں توسیع کا فیصلہ

دوران سماعت درخواست گزار رشیدہ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ انتقال کرچکی ہیں، جس پر وکیل پولیس افسران نے کہا کہ درخواست گزار کے انتقال سے درخواستیں غیر موثر ہوچکی ہیں۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست کو غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رشیدہ بی بی کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے اور گزشتہ سماعت پر ان کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔

عدالت میں دلائل دیتے ہوئے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران قتل کی سازش میں ملوث تھے، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ افسران کے ملوث ہونے کے شواہد کیا ہیں۔

لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران نے قتل کے شواہد ضائع کیے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کرچکی ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ سی پی او راولپنڈی بننے سے پہلے سعود عزیز آر پی او گجرانوالہ تھے جبکہ بیںظیر بھٹو کو حفاظتی حصار دینے کے ذمہ دار سی پی او تھے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری کو بھجوایا جبکہ بینظیر بھٹو نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد کیا تھا۔

عدالت میں انہوں نے دلائل دیے کہ پولیس افسران ایک سال سے ضمانت پر ہیں، ملزمان کو عجلت میں ضمانتیں دی گئی، لہٰذا سپریم کورٹ ملزمان کی ضمانت منسوخ کرے اور ان کے خلاف ٹرائل چلتا رہے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ پولیس افسران کے جیل جانے سے آپ کو کیا ملے گا، ایسی کون سی چیز حاصل کی گئی جس کی بنیاد پر ضمانت منسوخ کی جائے، ملزمان کو ضمانت ملے ایک سال ہو چکا ہے۔

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ قانون کی بالادستی کا سوال ہے، ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور شک کی بنیاد پر ضمانتیں منسوخ کیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی سزا کے خلاف ضمانت نہیں ہوسکتی، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔

پی پی کے وکیل نے کہا کہ اس خطے کی سب سے اہم رہنما کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے اس کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جبکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ملزمان کو قصور وار ٹھہرایا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ملزمان نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کروایا جبکہ عدالت سے 17 سال قید کی سزا ملنے والے ملزمان کو ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس مقدمے میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی نامزد ہیں اور یہ سب پرویز مشرف کنٹرول کر رہے تھے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ فرضی بات ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ واقعاتی شہادتوں میں ثبوت موجود ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا، بینظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی، جب جائے وقوعہ کو دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر قتل کیس کا فیصلہ،مشرف اشتہاری قرار، پولیس افسران گرفتار

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ کہتے ہیں ملزم عدالت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے، یہ کہہ کر ہم نے قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ایسے لیا جیسے چوری کا کیس ہو۔

وکیل کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے کے لیے ثبوت درکار ہوتے ہیں، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جائے وقوعہ کو جان بوجھ کر دھویا گیا۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہائیکورٹ کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں تھا، دہشت گردوں کو فائدہ دینا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ مداخلت کر ہی نہیں سکتی؟ آرٹیکل 199 ان لوگوں کے فائدے کے لیے ہے جن کے پاس دوسرا چارہ نہ ہو.

اس پر لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ کیا ہم ایک مرتبہ پھر بھٹو قتل کیس کی طرح وعدہ معاف گواہ پر انحصار کریں گے، جس پر آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ آپ قانون اور سیاست کو الگ رکھیں۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ جیسے ہی بینظیر بھٹو کا واقعہ ہوا، سی سی پی او اسکواڈ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوگیا جبکہ اقوام متحدہ رپورٹ میں بھی سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کا ذکر کیا گیا۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان کی ضمانت کو ریاست نے چیلنج کیا، جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ریاست نے ملزمان کی ضمانت کو چیلنج کر رکھا ہے، میں نے چیف جسٹس کو کہا کہ ہماری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کریں لیکن عدالت نے ایک مرتبہ بھی ہماری سماعت مقرر نہیں کی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مقدمے کا پہلا پہلو منظم منصوبے کا ہے، سب سے پہلے ہمیں جائے وقوع کے ڈیزائن کا بتائیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ اور لطیف کھوسہ کے درمیان سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سابق صدر ضیا الحق کا حوالہ دینے پر مکالمہ بھی ہوا۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ لطیف کھوسہ آپ سیاست اور قانون میں فرق کو قائم رکھیں۔

لطیف کھوسہ کے طویل دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزم سعود عزیز کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل دیے کہ اس معاملے پر پنجاب حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی، جس نے 5 چالان پیش کیے۔

خالد رانجھا نے کہا کہ میرے موکل کو کیس کی ابتدا میں ملزم نامزد نہیں کیا، 13 نومبر 2010 کو میرے موکل کو ملزم نامزد کیا گیا۔

اس دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا اس مقدمے میں کسی کو سزا دی گئی،جس پر دوسرے ملزم سابق ایس پی خرم شہزاد کے وکیل نے بتایا کہ اس مقدمے میں کسی کو سزا نہیں دی گئی۔

پولیس افسران کے وکیل نے کہا کہ میروے موکل پر جائے وقوعہ دھونے کا الزام ہے، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ کیا جائے وقوعہ دھونے کا کسی نے حکم دیا تھا؟

وکیل نے کہا کہ اس سوال کا جواب ریکارڈ پر نہیں ہے، اس پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیے جائے وقوع دھونے کا حکم کس نے دیا پوچھا جانا چاہیے تھا، اگر سوال پوچھا جاتا تو پتہ چلتا کہ کس نے حکم دیا اور مقدمہ آگے چلتا۔

بعد ازاں دونوں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست خارج کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزمان نے ضمانت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا اور اس حوالے سے ہائی کورٹ میں بھی اپیلیں زیر سماعت ہیں، لہٰذا عدالت ملزمان کی ضمانت سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے۔

واقعے کا پس منظر

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ چیلنج کردیا

بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس معاملے میں اتنی پیش رفت نہیں ہوسکتی تھی، تاہم 9 سال 8ماہ بعد راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان نے کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

31 اگست 2017 کو سنائے گئے فیصلے کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کردیا گیا تھا جبکہ سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں ہائیکورٹ کی جانب سے 17،17 سال قید کی سزا کا سامنا کرنے والے دونوں پولیس افسران کو ضمانت دے دی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024