• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

افسانہ: چابی

شائع December 9, 2018 اپ ڈیٹ December 21, 2018

سب کچھ اس کے منصوبے کے مطابق ہوا تھا سوائے ایک بات کے، شاید یہ بات اس کے ذہن میں کبھی بھی نہ آتی لیکن اس کی بیوی نے اس صبح اس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور تب سے وہ بے حد پریشان تھا، اتنی پریشانی تو اسے کل رات اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب وہ تجوری سے رقم نکال رہا تھا۔

اس نے بڑی احتیاط سے بغیر کوئی شور کیے رقم تجوری سے نکالی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا کہ 5 سال سے وہ کچھ ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا اور کل رات اسے یہ موقع میسر آگیا تھا جب اس کا کنجوس مالک تجوری کی چابی اپنے کوٹ میں بھول گیا تھا، جو کمرے کے ایک کونے میں ٹنگا ہوا تھا۔

وہ روز مالک کے کوٹ کی تلاشی لیتا اور کل رات پہلی بار اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس نے گھر آکر رقم کی کئی گڈیاں بیوی کے سامنے ڈھیر کردیں، اس کی بیوی پہلے تو اتنی رقم دیکھ کر گھبرا گئی پھر فوراً اُس سے پوچھا،

’کسی نے تمہیں چوری کرتے ہوئے دیکھا تو نہیں؟‘

’نہیں بالکل نہیں، وہ کنجوس بڈھا تو ابھی بھی سورہا ہوگا‘، اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔

’تمہیں آج یہ موقع کیسے ملا؟‘

’وہ کنجوس جلدی سوگیا تھا اور تجوری کی چابی اپنے کوٹ کی جیب میں بھول گیا تھا۔‘

’اب چابی کہاں ہے؟‘ اُس کی بیوی نے پوچھا۔

’وہ۔۔۔‘ اس نے سوچا،

’وہ میں نے کوٹ میں رکھ دی تھی، تاکہ پولیس ہمارے گھر کی تلاشی لے تو ہم گرفتار نہ ہوسکیں اور ویسے بھی ہم اس کنجوس کے نوکر ہیں ہمارے گھر کی تلاشی تو ضرور ہوگی۔‘

’ہمیں دن نکلنے سے پہلے اس ساری رقم کو باہر باغیچے میں چھپانا ہوگا‘، اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

پھر وہ دونوں بہت احتیاط سے باہر باغیچے میں گئے اور بغیر آواز کیے ہاتھوں سے نرم زمین کو کھودنے لگے، وہ کسی بھی طرح کا اوزار استعمال کرکے لوگوں کو متوجہ نہیں کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ہاتھوں سے زمین کھودنے میں انہیں زیادہ محنت کرنی پڑرہی تھی۔

کافی دیر بعد وہ اتنا گڑھا کھود چکے تھے کہ رقم کا تھیلاآسانی سے اُس میں چھپ سکتا تھا، انہوں نے رقم کا تھیلا گڑھے میں چھپا کر اسے احتیاط سے بند کردیا۔

دن نکلنے میں اب تھوڑا ہی وقت تھا وہ کمرے میں آگئے اور اپنے مستقبل کے خواب دیکھنے لگ گئے۔

’میں بہت سے کپڑے لوں گی، اتنے ڈھیر سارے‘، اس کی بیوی نے بازو پھیلا کر بتایا

’ہم تھوڑی سی زمین بھی لے لیں گے اور میں کوئی کاروبار بھی شروع کروں گا‘ اس نے کہا۔

وہ کافی خوش تھے لیکن اچانک اس کی بیوی نے وہ بات پوچھی جس کے بعد اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی۔

’ایک بات بتاؤ اگر تجوری کی چابی پر پولیس کو تمہاری انگلیوں کے نشان مل گئے تو ہم کیا کریں گے؟ پولیس ضرور تمہیں گرفتار کرلے گی۔‘

’وہ، وہ۔۔۔ ہاں لیکن۔۔۔ واقعی یہ بات میرے ذہن میں پہلے کیونکر نہیں آئی۔ مجھے فوراً کوٹھی میں جانا ہوگا اور کوٹ سے چابی نکال کر کسی کپڑے سے صاف کرنا ہوگی، اچھا ہوا تم نے یہ بات کہہ دی ورنہ پولیس سے بچنا ناممکن تھا۔‘

وہ یہ کہہ کر پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل گیا۔ اُسے رہ رہ کر اپنی حماقت پر غصہ آرہا تھا کہ کیوں اس نے چابی کو صاف نہیں کیا، اسے پولیس اور قید سے سخت خوف آتا تھا۔

وہ جب کوٹھی میں داخل ہوا تو صدر دروازہ ویسا ہی کھلا ہوا دیکھا جیسا وہ چھوڑ کرگیا تھا۔ وہ ابھی اندر داخل ہی ہوا تھا کہ اسے بوڑھے سیٹھ کی آواز آئی ’کہاں تھے تم؟‘ بوڑھے نے پوچھا جو صبح کی سیر کرکے واپس لوٹ رہا تھا اور اس نے وہی کوٹ پہن رکھا تھا۔

’وہ میری بیوی بہت سخت بیمار تھی، میں رات اس کی تیمارداری اور اسے دوا دینے کے لیے گھر گیا تھا‘ اُس نے بوڑھے کے کوٹ پر نظر دوڑائی اور سوچا کہ اب وہ کیسے اس سے کوٹ حاصل کرے۔

’اب کیسی طبعیت ہے تمہاری بیوی کی؟‘

’اب اس کا بخار اتر چکا تھا سو میں لوٹ آیا ہوں، ویسے آپ کا کوٹ کافی میلا ہوچکا ہے کیا میں اسے آج دھوبی کو دھلائی کے لیے دے دوں؟‘

’نہیں نہیں یہ تو بالکل صاف ہے‘، بوڑھے نے کوٹ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر کہا۔

’شاید جیبیں پرانی ہوچکی ہیں اور ان کے اندر کا کپڑا کافی بوسیدہ ہوچکا ہے، آپ کو ضرور اسے درزی کو سلائی کے لیے دینا چاہیے، اگر آپ اجازت دیں تو میں آج ہی بازار جاکر اسے درزی سے ٹھیک کرالاتا ہوں۔‘

’جیبیں ہیں تو ٹھیک لیکن تم سچ کہتے ہو اِس کا اندرونی کپڑا کافی پرانا ہوچکا ہے، جاؤ اسے آج درزی سے ٹھیک کرا لاؤ‘، بوڑھے نے یہ کہہ کر کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کردیا۔

اس نے بے چینی سے کوٹ لیا اور کوٹھی کے اندر ایک غسل خانے میں گھس گیا، دروازہ بند کرکے اُس نے کوٹ کی جیب کی تلاشی لی لیکن اسے کچھ نہ ملا۔

’چالاک بڈھا، اُس نے پہلے ہی چابی نکال لی ہے‘، اس نے سوچا اور کوٹ باہر آکر ایک صوفے پر رکھ دیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی، مجھے یقیناً کسی بھی قیمت پر چابی اس کنجوس بوڑھے سے حاصل کرنی ہوگی ورنہ ساری عمر جیل میں رہنا ہوگا۔

اس نے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا، باورچی خانے سے ایک چھری لی، صوفے سے کوٹ اٹھایا اور چھری اس کے نیچے چھپا کر بوڑھے سیٹھ کے کمرے میں داخل ہوگیا، بوڑھا سیٹھ تجوری کے سامنے کھڑا چیزیں اِھر اُدھر کررہا تھا۔

’یہ یقیناً تجوری کھولنے والا ہے اور سب کچھ اس پر عیاں ہوجائے گا‘، اس نے سوچا۔

’جناب! جناب! سنیے ایک بات پوچھنی تھی‘، اُس کی آواز غیر ضروری طور پر کافی اونچی تھی۔‘

بوڑھے سیٹھ نے فوراً مُڑ کر پیچھے دیکھا،

’کیا بات ہے اور یہ تم دروازے پر دستک دے کر کیوں نہیں آئے؟‘ بوڑھے سیٹھ کے لہجے میں ناراضگی کا عنصر غالب تھا۔

’جناب میں تھوڑی جلدی میں تھا سو مجھے یاد نہیں رہا‘، اس کی آواز ابھی بھی ڈری ہوئی اور اونچی تھی۔

’اچھا بتاؤ کیا کہنا ہے؟‘

’وہ آج کھانے میں کیا بنانا ہے، میں بازار جارہا تھا سوچا سامان لیتا آؤں گا۔‘

’تمہیں 5 سال ہوگئے ہیں ملازمت کرتے اور تمہیں معلوم ہے کہ میں ایسے سوالوں پر وقت ضائع نہیں کرتا، تمہیں یہ سوال ہرگز نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔‘

’وہ میں سمجھا آج کچھ خاص بنانا ہو تو پوچھ لوں‘، آواز بدستور اونچی تھی، وہ یہ کہہ کر مُڑا تو اس کے اندر کے خوف نے اسے ایک بار پھر پلٹنے پر مجبور کردیا کیونکہ اسے پولیس اور جیل سے بے حد ڈر لگتا تھا۔ اس نے سوچا کہ آج تجوری کھل گئی تو اس کا راز بھی کھل جائے گا اور وہ ساری عمر کے لیے جیل چلا جائے گا، اسے ہر قیمت پر اس بوڑھے کو روکنا ہوگا۔

’وہ آپ میری تنخواہ کب دیں گے؟‘، اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔

’آج 26 تاریخ ہے اور یہ 31 کا مہینہ ہے اور تم جانتے ہو کہ میں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو تمہیں تنخواہ دے دیتا ہوں۔‘

’وہ میری بیوی بیمار ہے، مجھے اِس بار جلدی تنخواہ چاہیے تھی۔‘

’ٹھیک ہے میں 26 دن کی تنخواہ تمہیں آج ہی دے دوں گا اور اب تم باہر جاؤ مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے۔‘

’یہ ضرور تجوری کھولنا چاہتا ہے، بڈھا مجھے جیل پہنچا کر ہی دم لے گا، کچھ بھی ہوجائے میں جیل نہیں جاؤں گا‘، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

’میں آپ کو یہ تجوری نہیں کھولنے دوں گا‘، اس نے چلّا کر کہا، معلوم نہیں اُس نے کیا سوچ کر یہ بات کہہ دی تھی۔

’تمہارے ساتھ آج مسئلہ کیا ہے، تم عجیب وغریب باتیں کررہے ہو‘، بوڑھے نے غصے سے کہا۔

’تم مجھے جیل بھیجنا چاہتے ہو اور یہ میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا، تم یہ تجوری نہیں کھول سکتے‘، اس نے یہ کہہ کر کوٹ ایک طرف پھینکا اور چھری بوڑھے کے سامنے لہرانے لگا۔

’بیوقوف آدمی، میں تجوری نہیں کھول رہا مجھ سے کل رات وہ چابی کھو گئی ہے اور میں یہ سامان اسی لیے ہٹا رہا ہوں کہ شاید وہ سامان کے نیچے ہو؟‘

’سامان کے نیچے۔۔۔ مطلب، چابی رقم کے ساتھ۔۔۔ زمین۔۔۔‘ اس نے سوچا اور چھری وہیں پھینک کر دوڑ لگا دی۔

اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے؟ سڑک پر ایک گاڑی سے زور دار ٹکر لگی اور وہ قلابازیاں کھاتا ہوا دور جاگرا۔ اُس کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور خون تیزی سے سڑک پر بہنے لگا، ایک بڑے سائز کی چابی جو غالباً کسی تجوری کی تھی، خون اُس پر سے بہتا ہوا سڑک کے ایک طرف ڈھلوان میں ایک لکیر سی بنانے لگا۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ریمل آرزو Dec 09, 2018 10:00pm
بہت عمدہ تحریر

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024