لاہور: مالکان کا بھٹوں کی بندش کے حکومتی حکم کی خلاف ورزی کا عندیہ
لاہور: اینٹیں تیار کرنے والے بھٹہ مالکان نے صوبائی حکومت کی جانب سے پنجاب بالخصوص لاہور میں اسموگ کے خطرے کے پیشِ نظر 20 اکتوبر سے بھٹے بند کرنے کے حکم کی خلاف ورزی کا عندیہ دے دیا۔
بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے سربراہ شعیب خان نیازی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کا 20 اکتوبر سے 31 دسمبر تک 70 دنوں کے لیے بھٹے بند کرنے کا فیصلہ نادانی پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکام کس طرح اینٹوں کی صنعت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر منسلک ہزاروں مزدورں سے 2 وقت کی روٹی چھین سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: اینٹوں کے بھٹوں کی بندش کے حکومتی منصوبے پر تنقید
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیشکش کی تھی کہ اگر اسموگ کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہم رضاکارانہ طور پر بھٹے بند کردیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ماحولیات کو تکنیکی ماہرین اور جدید آلات استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہیے تا کہ اسموگ کا آغاز ہوتے ہی وہ اپنے بھٹے بند کردیں۔
لیکن انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے یک طرفہ طور پر فیصلہ کرتے ہوئے 20 اکتوبر سے بھٹیے بند کرنے کا حکم دیا ہے جس کی ہر طرح سے مزاحمت کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: 'اسموگ کی وجہ کارخانوں سے نکلتا دھواں'
بھٹوں کو زی زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام بھٹوں کو اس پر منتقل ہونے کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں مالی تو درکنار تکنیکی معاونت بھی فراہم نہیں کی جارہی، جبکہ نئی ٹیکنالوجی پر منتقل ہونے والے بھٹوں کو اس عمل میں خامیوں کے سبب نقصان کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھٹہ مالکان نئی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ توانائی کے لحاظ سے بہتر ہے اور خاصی بچت کا باعث بنے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسموگ کنٹرول کرنے کیلئے پنجاب کلین ایئر کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ
خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے بھٹوں سے نکلنے والے دھویں سے بننے والے اسموگ کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں اینٹوں کے بھٹوں کو 70 روز کے لیے بند کرنے کے احکامات دیے تھے۔
حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی نہیں کرواسکتے کہ بھٹے بند کردیے جائیں گے اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ بندش کے سبب بھٹہ مالکان کو پہنچنے والے نقصان کے معاوضے اورملازمین کو 2 ماہ سے زائد عرصے کے لیے اخراجات کی فراہمی کے حوالے سے کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا گیا۔
یہ خبر یکم اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
تبصرے (2) بند ہیں