چینی کی کتنی مقدار کا روزانہ استعمال صحت کے لیے محفوظ؟
اکثر افراد کاکھانا اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کچھ میٹھا نہ کھالیں اور ماہرین غذائیت چینی کو لت قرار دیتے ہیں مگر ایک شخص کے لیے روزانہ کتنی چینی استعمال کرنا مددگار ثابت ہوتا ہے؟
ہوسکتا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ کتنا میٹھا بہت زیادہ ہے یعنی کتنی مقدار؟ مگرکیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں ایک دن میں کتنی چینی کھانی چاہئے اور ہم کتنی کھاتے ہیں؟
درحقیقت لوگوں کو اکثر احساس ہی نہیں ہوتا کہ صرف سفید چینی ہی ان کے استعمال میں نہیں آتی، ایسی متعدد چیزیں ہیں، جن میں شکر موجود ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں : چینی کے زیادہ استعمال کے 10 مضر اثرات
مثال کے طور پر ایک چائے کے چمچ کیچپ میں ایک چائے کے چمچ کے برابر چینی ہوتی ہے۔
امریکی محکمہ صحت کے مطابق ایک بالغ فرد دن بھر میں استعمال کی جانے والی کیلوریز کے 10 فیصد حصے کے برابر شکر استعمال کرسکتے ہیں۔
مگر عالمی ادارہ صحت نے یہ شرح 10 سے کم کرکے 5 فیصد کردی ہے۔
عالمی ادارے کے مطابق معمول کے جسمانی وزن کے حامل بالغ فرد دن بھر میں 6 چائے کے چمچ سے زیادہ چینی استعمال نہ کریں یا 25 گرام چینی کافی ہے۔
یہ سب سفارشات ایڈڈ شوگر کے لیے ہیں۔
ایڈڈ شوگر اور قدرتی مٹھاس میں کیا فرق ہے؟
ایڈڈ شوگر درحقیقت پراسیس شکر ہے جیسے سفید چینی یا شہد، جنھیں آپ مختلف غذاﺅں میں ڈال کر انہیں میٹھا بناتے ہیں، عام طور پر ایڈڈ شوگر ٹافیوں، بسکٹوں اور ایسی ہی اشیاءمیں عام ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کو مٹھاس کی اس قسم کے حوالے سے کافی خدشات ہیں جو کہ ذیابیطس، موٹاپے اور متعدد امراض کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں قدرتی مٹھاس وہ ہے جو پھلوں، سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور اجناس میں پائی جاتی ہے، یعنی مٹھاس میں کم ہونے کے ساتھ یہ صحت کے لیے دیگر فوائد کی حامل غذائیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اگر چینی کھانا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
اگرچہ دونوں اقسام کی شکر جسم کو لگ بھگ ایک جیسے طریقے سے متاثر کرتی ہے مگر ایڈڈ شوگر جسم میں آسانی سے گھل جاتی ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بہت تیزی سے اوپر جاتا ہے۔
بہت زیادہ ایڈڈ شوگر کے استعمال سے کیا ہوتا ہے؟
مٹھاس کی اس قسم کا زیادہ استعمال متعدد مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسے توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، چڑچڑا پن، بلڈ شوگر لیول اچانک گرنا یا بڑھنا، جسمانی ورم، موٹاپا، گردوں کے امراض، امراض قلب اور ذیابیطس وغیرہ۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔