تھرپارکر: 'زیر زمین 9 ارب کیو بک میٹر پانی کو قابل استعمال بنانا ممکن ہے'
سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کے ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ مائینز مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کو ایک جانب پانی کی کمی کا سامنا ہے کہ تو وہیں یہاں زیر زمین 9 ارب کیوبک فٹ پانی موجود ہے۔
تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں حکومت سندھ اور اینگرو کوآپریشن لمیٹڈ کے ذیلی ادارے اینگرو جنریشن کے اشتراک سے بنائی جانے والی کمپنی ایس ای سی ایم سی کے کول مائننگ اور توانائی (بجلی) کی پیداوار کے پلانٹ کے دورے کے موقع پر بریفنگ کے دوران مرتضیٰ اظہر رضوی نے بتایا کہ تھرپارکر، جسے سندھ حکومت کی جانب سے قحط زدہ علاقہ قرار دیا گیا ہے، میں پانی کی شدید قلت ہے لیکن اس علاقے میں زیر زمین پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ ایک سروے کے مطابق تھر میں تقریباً 9 ارب کیوبک میٹر پانی کے ذخائر موجود ہیں، تاہم انہوں نے سروے کا حوالہ نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس پانی کو استعمال کرنے میں ایک مشکل درپیش ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 5 ہزار ہے جبکہ انسان کے قابل استعمال پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 150 سے 250 کے درمیان ہونی چاہیے جبکہ شہروں میں ملنے والے پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو تقریبا 8 سو سے ایک ہزار کے درمیان ہوتی جو مضر صحت ہے، ان ساری باتوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تھر کا پانی فوری طور پر استعمال کے قابل نہیں'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'سمندر کے پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 42 ہزار کے قریب ہوتی ہے لیکن اس میں مچھلیاں زندہ رہ سکتی ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے ایس ای سی ایم سی نے تجربات کیے کہ کس طرح تھر کے پانی کو پراسیس کرکے اسے زراعت اور مچھلیوں کی افزائش کے لیے قابل استعمال بنایا جائے'۔
خیال رہے کہ مختلف تحقیقاتی اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈیزولو سولڈ)، جس کا مطلب ہے کہ پانی میں نامیاتی اور غیر نامیاتی مادہ کو تحلیل کرنے کی صلاحیت کتنی موجود ہے، کے حوالے سے بتایا گیا کہ انسان کے لیے قابل استعمال پانی کا ٹی ڈی ایس 150 سے 300 تک ہونا چاہیے جبکہ 300 سے 600 ٹی ڈی ایس کو اچھا اور اس سے زائد ٹی ڈی ایس ویلیو والے پانی کو ناقابل استعمال قرار دیا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سمندر کے پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 35 ہزار سے 42 ہزار تک ہوتی ہے جبکہ تھر میں زیر زمین پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 5 ہزار بتائی جارہی ہے۔
مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ تھر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کی کوششیں کی گئیں تاکہ مقامی افراد کو سہولیات فراہم کی جاسکیں اور کچھ عرصے سے ہونے والے مختلف تجربات کے بعد یہ کامیابی حاصل کرلی گئی کہ مذکورہ پانی کو پراسیس کرکے زراعت کے لیے قابل استعمال بنایا گیا جبکہ اس پانی میں مچھلیوں کی افزائش بھی بہتر طریقے سے ہورہی ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی کی جانب سے کیے جانے والے تجربات کی کامیابی کے بعد یہ تکنیک مقامی افراد کو مہیا کی جائے گی اور حکومت سندھ کو اس حوالے سے مقامی افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی دررخواست کی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں کمپنی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ تھر کے پانی کو استعمال میں لانے کے لیے یہاں 12 آر او پلانٹ بھی نصب کیے گئے ہیں جبکہ مزید آر او پلانٹ بھی لگائے جائیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں ںے چین کا حوالہ دیا کہ چینی کمپنیوں نے کس طرح سیلائن واٹر کو استعمال کرتے ہوئے بائیو سیلائن ایگریکلچر (زراعت)، لائیو اسٹاک کے لیے چارے کی پیداوار اور فش فارمنگ کے لیے قابل استعمال بنایا، ان کا مزید کہنا تھا کہ تھرپارکر میں 220 میٹر پر مذکورہ سیلائن واٹر (پانی) حاصل کیا جاسکتا ہے جسے پراسیس کے ذریعے مختلف امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مچھلیوں کی افزائش کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تجربے کے لیے مچھیلوں کی مذکورہ پانی میں افزائش کی گئی تھی جو کامیاب رہی اور اس وقت ان مچھلیوں کا وزن ایک کلو گرام سے 2 کلوگرام تک پہنچ چکا ہے۔
مرتضیٰ اظہر رضوی کا مزید کہنا تھا کہ ایس ای سی ایم سی نے تھر میں مذکورہ ماڈل کے تحت ہی 10 لاکھ درخت لگانے کا منصوبہ بھی بنایا۔
بعد ازاں ایک سائیٹ کے دورے پر مذکورہ بائیو سیلائن ایگریکلچر پروگرام کی ذمہ دار فاطمہ خالد نے بتایا کہ پروگرام کے تحت تھر میں 3 لاکھ 30 ہزار درخت لگائے جاچکے ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں، تاکہ انہیں جانور نقصان نہ پہنچا سکیں۔
فاطمہ خالد نے مزید بتایا کہ مذکورہ پروگرام کے تحت بائیو سیلائن واٹر کے تحت بھی زراعت کی کوششیں کی گئی ہیں جبکہ پراسیس شدہ پانی کے ذریعے بھی مقامی طور پر اُگنے والے پودوں کی افزائش کی کوشش کی گئی ہے اور دونوں ہی صورتوں میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں طریقوں سے مقامی جانوروں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے چارہ اُگانے کا کام بھی کیا گیا تھا جس میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، انہوں نے بتایا کہ پروگرام کے ابتدا میں تخمینہ لگایا جارہا تھا کہ 60 فیصد تک بائیو سیلائن واٹر سے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرتضیٰ اظہر رضوی نے جانوروں کے چارے کے حوالے سے بتایا تھا کہ تجرباتی طور پر ابتدا میں بائیو سیلائن واٹر سے اُگائے گئے چارے کو براہ راست جانوروں کے چارے کے طور پر دیا گیا تاہم انہوں نے استعمال نہیں کیا لیکن بعد ازاں اسے دیگر استعمال ہونے والے چارے کے ساتھ ملا کر دیا گیا تو جانوروں نے اسے کھایا اور اس کے نتائج بھی بہتر آرہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار کے ذریعے مقامی جانوروں کی نا صرف غذائی ضروریات پوری کی جاسکیں گی بلکہ مذکورہ تکنیک مقامی افراد کو فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ اپنے لائیو اسٹاک سے بہتر انداز میں فوائد (دودھ اور گوشت) حاصل کرسکیں۔
علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس تمام پروگرام کے لیے مقامی لوگوں کی خدمات ہی حاصل کی گئی ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع فراہم کیے جائیں جبکہ پروگرام کے ماہرانہ امور کو دیکھنے کے لیے چین اور پاکستانی ماہرین کی معاونت اور مدد حاصل کی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں