ایل این جی معاہدہ، پی ایس او میں تعیناتیوں سے متعلق رپورٹ طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی ایس او میں تعیناتیوں اور قطر سے ایل این جی معاہدے میں شفافیت کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے پی ایس او بورڈ سے 10 روز میں ایل این جی معاہدے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ قطر سے معاہدہ کرتے وقت شفافیت کو مدنظر رکھا گیا یا نہیں، عوام میں یہ بحث چل رہی ہے کہ قطر سے کیے گئے معاہدے میں شفافیت نہیں برتی گئی۔
عدالت نے نیب سے بھی ایل این جی معاہدے سے متعلق زیر التوا انکوائریز کی رپورٹ اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے اندر اقربا پروری اور سفارش پر کی گئی بھرتیوں کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
عدالت نے وزیر پیٹرولیم کو آڈٹ رپورٹ کے مطابق عمل درآمد کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بھاری تنخواہوں پر عوامی پیسے کو لوٹنے کے لیے من پسند لوگوں کو لگایا گیا، نیب آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، نیب بھی آپ کی معاونت کرے گا۔
نیب کی جانب سے انکوائریز رپورٹ پیش کرنے کے لیے 3 ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اتنی مہلت نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب کی تحقیقات میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ پھر کہا جائے عدالت نے ملزمان کو چھوڑ دیا۔
اس موقع پر غلام سرور خان نے کہا کہ ایل این جی معاہدہ بادی النظر میں شفاف نہیں تھا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
عدالت نے پی ایس او کی سابق انتظامیہ کی جانب سے بھرتیوں کے جائزے کا بھی حکم دیا گیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے بھرتیاں میرٹ پر ہوئیں یا اقربا پروری کی گئی۔
قبل ازیں چیف جسٹس نے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کو طلب کرتے ہوئےکہا کہ پتہ کرکے بتائیں غلام سرور کتنی دیر میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی طرف سے پرائیوٹ وکیل کے پیش ہونے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں پرائیویٹ وکیل کیوں پیش ہوئے۔
انہوں نے پی ایس او کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو وکالت کے لیے کتنی فیس ملی۔
وکیل نے جواب دیا کہ میری وکالت کی فیس 15 لاکھ روپے طے ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اداروں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے پھر پرائیوٹ وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ وکیل کے پیش ہونے سے متعلق جسٹس قاضی فائز صاحب کا فیصلہ موجود ہے۔
انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ کہاں گئے وہ 37 لاکھ والے 'سی ای او' جس پر وکیل پی ایس او نے کہا کہ وہ 31 اگست کو ریٹائر ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کھا پی کر چلے گئے اور پی ایس او کو برباد کرکے رکھ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی پی ایس او کو اتنی تنخواہ پر کیوں لگایا گیا، کیا وہ ارسطو تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’گیس کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو گردشی قرضوں میں اضافہ ہوجائے گا‘
اس موقع پر نیب کے وکیل نے کہا کہ بھرتیاں بظاہر ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیوں سابق ایم ڈی پی ایس کو بھرتی کیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ نیب نے اب تک کیا اقدامات کیے؟ نیب نے احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی گرفتاری سے متعلق بڑی بڑی خبریں چلوائیں جبکہ ہم نے نیب کو مکمل سپورٹ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا عدلیہ کی طرف سے نیب کو دی گئی سپورٹ کم تھی، اس سے زیادہ عدلیہ اور کیا کرے، کراچی میں ڈی جی نیب کو لگایا گیا جن پر مقدمہ چل رہا ہے جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم کے عدالتی فیصلے کے باوجود نیب کے افسران کام کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ایس او میں صرف ایم ڈی کو بھاری تنخواہ پر نہیں لگایا گیا اس کے علاوہ بھی ہیں، جی ایم پی ایس او کی تنخواہ 14 لاکھ روپے ہے، جبکہ جی ایم ایچ آر اور جی ایم فیول کی تنخواہیں 13، 13 لاکھ روپے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کو بلا لیں، پی ایس او میں کتنی مہنگی گاڑیاں ہیں ان کی تفصیل بھی دیں انہوں نے کہا کہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے مقدمے کا کیا ہوا، نیب نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔
نیب کے وکیل نے بتایا کہ ریفرنس فائل کیا گیا ہے۔
عدالت نے سماعت کے دوران نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب نے اب تک کیا کیا، کتنی انکوائریاں مکمل کیں، چیئرمین نیب کو کہیں چیمبر میں آکر بریفنگ دیں، ہم نیب کا مکمل ڈھانچہ بدل دیں گے۔
کیس کی سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔